تحریر:اسلام گل آفریدی
ایک زمانہ تھا جب قراقلی کا استعمال پشتون علاقوں میں بہت زیادہ تھا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں بڑی حد تک کمی آئی ہے
یہ کام محنت طلب اتنا ہے کہ پورے دن میں صرف ایک ہی ٹوپی تیار کی جا سکتی ہے، قراقلی میں جناح کیپ کا استعمال زیادہ جبکہ لیاقت علی کیپ کا بہت ہی کم ہے
پشتون روایات میں بعض ایسی چیزیں موجود ہیں جو دوسرے علاقوں سے آ کر ان کی ثقافت اور روایات کا اس طرح حصہ بن چکا ہے کہ کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ یہ کوئی باہر سے آئی ہوئی روایت یا ثقافت ہے، ان میں ایک قراقلی ٹوپی بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وسطی ایشیائی ممالک سے افغانستان اور بعد میں متحدہ ہندوستان پہنچی۔ ایک زمانہ تھا جب قراقلی ٹوپی کا استعمال پشتون علاقوں میں بہت زیادہ تھا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔
ساٹھ سالہ محمد اقبال بنگش، جو کہ ضلع ہنگو کے علاقے ٹل کے رہائشی ہیں، قصہ خوانی میں قراقلی کے ٹوپی خریدنے کے لئے دکاندار کے ساتھ مصروف ہیں۔ وہ بچپن ہی سے قراقلی ٹوپی استعمال کرنے کے شوقین ہیں کیونکہ پہلے والد اور بعد میں بڑا بھائی اسے استعمال کرتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مزدوری کے سلسلے میں ایک بڑا عرصہ سعودی عرب میں گزارا لیکن وہاں پر بھی اس کا استعمال ترک نہیں کیا۔ اقبال کا شوق اب کم نہیں ہوا ہے البتہ قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیف مومند پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں پچھلے پچاس سال سے قراقلی ٹوپی بناتے اور بیچتے ہیں۔ سیف کے مطابق قراقلی بھیڑ کی ایک خاص نسل کے نومولود بچے کی کھال سے تیا ر کی جاتی ہے جو کہ افغانستان کے صوبہ مزارشریف سے یہاں مقامی مارکیٹ لائی جاتی ہے، جس کو مقامی زبان میں پوست کہتے ہیں۔ سیف نے کہا کہ گاہگ اپنی پسند کی پوست خریدتا ہے جس کے بعد اس کی صفائی کا کام شروع کر دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں کھال کی سلائی کی جاتی ہے جس کے بعد پانی سے گیلا کر کے ایک خاص ڈائی پر اس کو چڑھا کر اس کے اطراف موڑ دیئے جاتے ہیں، یہ کام محنت طلب اتنا ہے کہ پورے دن میں صرف ایک ہی ٹوپی تیار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قراقلی ٹوپی میں جناح کیپ ڈیزائن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جبکہ لیاقت علی کیپ کا استعمال بہت ہی کم ہے۔
موجودہ قراقلی کی قیمت تین ہزار سے لے کر پندرہ ہزار تک ہے۔ کھال یا پوست چار قدرتی رنگوں یعنی کالے، بادامی، خاکی اور سرمئی دستیاب ہوتا ہے لیکن بادامی رنگ اپنی باریکی اور دلکشی کی وجہ سے سب سے مہنگا ہوتا ہے۔ پچیس سالہ ابوبکر مردان کے رہائشی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے حکیم ہیں اور پچھلے بارہ سالوں سے قراقلی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں پہلے بڑی بھائی نے قراقلی کا استعمال شروع کیا تھا جبکہ انہوں نے خود اپنے حوالے سے بتایا کہ تاریخ میں یہ بات موجود ہے کہ اس کا استعمال بڑے عالم دین کیا کرتے تھے جن کی معاشرے میں ایک الگ پہچان ہوتی تھی۔ ان کے بقول قراقلی کو بہت ہی کم میل لگتا ہے لیکن جب دھلائی کی ضرورت پیش آتی ہے تو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کی صفائی کی جاتی ہے کیونکہ یہ بہت نازک کام ہوتا ہے۔
پشاور میں پنتیس سال پہلے قراقلی کی120 سے زائد دکانیں صرف اندرون شہر تھیں لیکن اب صرف دو دکانیں ہی رہ گئی ہیں۔ پنتالیس سالہ حضرت اللہ کے والد نے ساٹھ سال پہلے قراقلی تیار کرنے اور بیچنے کا کام شروع کیا تھا۔ حضرت نے کہا کہ ا ن کے ولد الحاج بشیر احمد نے پاکستان کے سابقہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکو قراقلی کی ٹوپی پہنائی تھی جب وہ یہاں قصہ خوانی میں جلسہ کرنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستانی سیاست کے بڑے ناموں کو میرے والد نے اپنے ہاتھوں سے قراقلی ٹوپی تیار کر کے پیش کی تھی۔ حضرت اللہ کے مطابق قراقلی کے استعمال میں بہت کمی آئی ہے کیونکہ کئی دہائیاں پہلے جب پشتون بیرونی ملک سے آتے تھے تو گھر جانے سے پہلے یہاں پر آ کر قراقلی ضرور خریدتے تھے، اس کے علاوہ شادی اور عید کے لئے لوگ بہت شوق سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے بھی خرید لیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب تو ہفتے میں ایک یا دو ٹوپی بمشکل فروخت ہو جاتی ہیں باقی اکثریت نوجوان صرف تصویر یا مذاق کے لئے سر پر رکھ لیتے ہیں۔
محمد اقبال نے اپنی جیب سے موبائل سیٹ نکال کر کہا کہ دیکھئے یہ میرا بیٹا، آسٹریلیا میں رہتا ہے اور جب بھی پاکستا ن آتا ہے تو وہ گھر میں میری قراقلی ٹوپی بڑے شوق سے استعمال کرتا ہے لیکن باہر نہیں جاتا اور کہتا ہے کہ محلے والے مذاق اڑائیں گے۔ انہوں نے کہا نہ صرف وہ اپنے خاندان میں بلکہ پورے علاقے میں واحد بندہ ہے جو کہ قراقولی ٹوپی استعمال کرتا ہے۔ محمد اقبال کے مطابق پوری دنیا میں اس کی الگ پہچان ہے جسے زندہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر میں اب بھی ان کے چار جوڑے کپڑوں کے ساتھ ہر رنگ کی ایک قراقلی موجود ہے جن کا وہ بہت خیال رکھتے ہیں اور خاص مواقعوں پر انہیں استعمال کرتے ہیں۔ضرت اللہ کے مطابق قراقلی کے گاہگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہفتے میں ایک بھی خریدار آ جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی کا ریٹ لگا کے پیسے دیتا ہے نہیں تو جلدی قریبی دکان چلا جاتا ہے۔ انھوں نے بار بار والد کو یہی مشورہ دیا کہ بس اس کاروبار کو ختم کرتے ہیں اور کوئی دوسرا روزگار شروع کرتے ہیں لیکن ان کا جواب ہوتا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں تب تک اس کو ختم نہیں کرنا کیونکہ یہ پشتون ثقافت کی ایک نشانی ہے جو (ہمارے کاروبار کو ختم کرنے سے شاید) مٹ جائے گی۔
قراقلی کے لئے چمڑا افغانستان سے درآمد کیا جاتا جو کہ ڈالر میں خریدا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ اس کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ تاریخی طور پر پشتون علاقوں میں قراقلی عام لوگ نہیں بلکہ امیر، سردار، نواب، ارباب اور قومی مشران استعمال کرتے تھے۔
جدید دور میں دیگر روایتی ٹوپیوں کے استعمال بھی میں کافی کمی واقع ہوئی ہے تاہم قیمتیں بڑھنے اور حکومت کی عدم سرپرستی کی بناء پر قراقلی کا استعمال تقریباً معدوم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خدشہ یہی ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو اس حوالے سے معلومات صرف تحریری شکل میں ہی ملیں گی۔