افتخار افتی
ایک شخص کے ہاتھ میں ڈاکٹری نسخہ دیکھ کر میں دیر تک یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ آخر اُس کو یہ لکھ کیا گیا ہے؟ ’’لکھے موسیٰ پڑھے خدا‘‘ کے مصداق لگ ایسا رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچی ہوں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ ڈاکٹری نسخے میں تجویز کردہ ادویہ کی قیمت پانچ ہزار روپیہ سے اوپر تھی۔
خدا اس ملک میں کسی غریب کو بیمار نہ کرے، کیوں کہ زیادہ تر قوم کے مسیحا ڈکیت بن کر غریب عوام کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں کسی محلے یا علاقے میں ایک عام سا کمپوڈر یا عطائی لوگوں کا علاج کرتا اور مریض جلد ہی صحت یاب ہوجاتا۔ آج اگر دیکھا جائے، تو جگہ جگہ پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں کی بھرمار ہے۔ ڈاکٹروں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ میڈیکل سٹور بھی جگہ جگہ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ مطلب، ہر قسم کی سہولیات با آسانی میسر ہیں لیکن باوجود اس کے، روز بروز بیماروں اور بیماریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مریض اتنا کھا نہیں رہے جتنا کہ وہ ادویہ کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ علاج کی غرض سے کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں، تو واپسی میں آپ کو ایسا نسخہ تھما دیا جائے گا، جس سے آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ مختلف ٹیسٹوں، الٹرا ساؤنڈ اور ایکسرے وغیرہ کا خرچہ الگ ہوگا۔ یعنی غریب کا ڈاکٹر کے پاس جانا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
اب ایک اور مزے کی بات ملاحظہ ہو۔ قوم کے یہ مسیحا عموماً ایسی ادویہ تجویز کرتے ہیں جن کے استعمال کی وجہ سے مریض مختلف عارضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ والی ضرب المثل اس پر صادِق آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آئیں، آج ایسی ہی ایک حقیقت کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے، نجی ہسپتال اور کلینک بھی قدم قدم پر مل جاتے ہیں، ہر قسم کی دوا بھی ہماری پہنچ سے دور نہیں ہے، تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں کہ کوئی دوا کارگر ثابت ہو رہی ہے اور نہ کسی ڈاکٹر کے ہاتھ میں وہ شفا ہی باقی رہی ہے۔ بات واضح اور صاف ہے۔ کچھ خوفِ خدا اور اپنے پیشے کو عبادت کے طور پر لینے والے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر آپ ایک طائرانہ نظر اُن پر ڈالیں جو زیادہ تر دولت کے پجاری بن چکے ہیں۔ جب کسی مقدس پیشے میں کسی مسیحا پر دولت کی ہوس حاوی ہوجاتی ہے، تو نتیجہ پھر صفر ہوجاتا ہے اور اس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
جب سے بڑی بڑی ادویہ ساز کمپنیاں وجود میں آئی ہیں، تو اس طرح آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے والے ڈاکٹر اُن کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ یہ بڑی کمپنیاں ان حضرات کے ساتھ ڈیل کرتی ہیں۔ انہیں بڑے بڑے تحائف آفر کرتی ہیں، جن میں اے سی، فریج اور کار تک شامل ہوتا ہے۔ یہ چیزیں انہیں عنایت کی جاتی ہیں اور یوں اس مقدس پیشے کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ بات یہاں آکر ختم نہیں ہوتی، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم کے ڈاکٹر حضرات کو مختلف ممالک کا دورہ بھی کرایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا، تو آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ اس قسم کے ڈاکٹروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ پھر نزلہ گرتا ہے، تو بے چارے غریب عوام پر۔ کیوں کہ جب یہ لوگ قوم کے ان نام نہاد مسیحاؤں پر اتنے ہی ’’مہربان‘‘ ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ بدلے میں صرف اُن ہی کے متعلقہ ’پراڈکٹس‘‘ لکھیں گے۔ خواہ اِن سے کسی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، اُنہیں تو ’’ڈیل‘‘ کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ تالی تو ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ’’کچھ دو، کچھ لو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرکے دونوں طرف فائدہ ہو رہا ہے، لیکن بے چارے غریب عوام جن کی زندگی نہایت کسمپرسی کی حالت میں گزر رہی ہے، وہ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے جاننے والے’’میڈیکل ریپس‘‘ حضرات ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ جب ہم پہلے پہل کسی ڈاکٹر کا وزٹ کرتے ہیں، تو پہلی فرصت میں وہ اکثر کسی ایسی قیمتی چیز کی ڈیمانڈ کر دیتا ہے کہ ہمارے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ڈھیر سارے حضرات تو وزٹ کے لیے اس وجہ سے وقت نہیں دیتے کہ ہم نے اُن کا ’’مطالبہ‘‘ مقررہ وقت پر پورا نہیں کر پاتے۔
قارئین، یاد رہے کہ سب لوگ کبھی، کسی بھی جگہ ایک جیسے نہیں ہوا کرتے۔ نیک، خدا ترس اور ملنسار ڈاکٹر بھی یہاں موجود ہیں، لیکن اب بھی یہاں ایسے نام نہاد ڈاکٹر با آسانی مل جاتے ہیں، جن کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں۔ اُنہیں فکر ہے، تو بس صرف اپنی اور یہی وجہ ہے کہ یہ مقدس پیشہ ان چند کالی بھیڑیوں کی وجہ سے بدنام ہورہا ہے۔ یہ خود دوسروں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکے ہیں اور اپنا وقار کھو چکے ہیں۔