اسحاق میاں
آج سے ایک سال قبل ماہِ جون کا آخری ہفتہ میری زندگی کا سخت ترین، تکلف دہ اور ناقابلِ فراموش ہفتہ رہا۔ مَیں اپنے بھائی ”ڈاکٹر یوسف خان“ (مرحوم) کی اچانک دماغی شریان پھٹنے اور بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اذیت اور آزمائش سے گزر رہا تھا۔ مجھے یہ علم تھا کہ میرے بھائی کی جان اگر بچ بھی جائے، تو وہ ہمیشہ کے لیے اپاہج اور معذور رہے گا۔ اسی لیے مَیں دل میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اب واپس سعودی عرب نہیں جاؤں گا۔ دراصل مَیں چھٹی گزارنے گاؤں گیا تھا، مگر عالمی وبا کورونا کے سبب چار مہینوں سے قید ہوکر رہ گیا تھا۔ اس لیے باقی زندگی اپنے بھائی کی خدمت میں گزارنے کے لیے وقف رکھنے کا سوچا تھا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ بھائی کے کفن دفن سے فارغ ہونے کے بعد رات دس بجے مجھے سعودی ایئر لائن آفس سے کال موصول ہوئی اور مجھے کہا گیا کہ چار جولائی کو فلائٹ ہے۔چھٹی اور ویزا دونوں پہلے ہی ختم ہوچکے تھے۔ کورونا وبا کے سبب پابندی کے بعد یہ پہلی فلائٹ تھی۔
تحریر کی تنگ دامنی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی کہوں گا کہ 29 جون 2020ء کو بھائی کے دماغ کا آپریشن ہوا۔ آپریشن سے پہلے جب مجھ سے آپریشن کے لیے ”ہائی رسک کنسینٹ“ لیا جا رہا تھا، تو یہ میری زندگی کا سب سے دردناک مرحلہ تھا۔ دستخط کرنے کے بعد مَیں بے اختیار چیخ چیخ کر رونے لگا۔ اسی اثنا میں میرے کزن نوید نے فون کیا، وہ فون پر میری ہچکی بندھی سن کر بہت پریشان ہوئے۔ شفا انٹر نیشنل اسپتال اسلام آباد میں سوات سے تعلق رکھنے والے ایک میل سٹاف نرس میری ہمت بندھانے کی کافی کوشش کرتے رہے۔ مجھے تسلیاں دیتے رہے۔ اس وقت میں اس دنیا میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ بے بس، مجبور، لاچار اور تنہا انسان محسوس کر رہا تھا۔ مَیں خوب سمجھ رہا تھا کہ بھائی کا اس آپریشن سے بچنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ "Brain Aneurysm” کے سبب خون گہرائی میں وسط دماغ میں جمع ہوا تھا، جس کا آپریشن کرنا خطرے سے ہرگز خالی نہ تھا، مگر آپریشن کرنے کے علاوہ بھی کوئی چارہ تو نہ تھا۔ آپریشن نہ ہونے کی صورت میں تب بھی وہ زیادہ عرصہ نہیں جی پاسکتا تھا، لیکن چوں کہ شفا انٹر نیشنل اسپتال اسلام آباد کے نیرو سرجن ڈاکٹر اکبر خان نے مجھے آپریشن کی صورت میں 90 فیصد اور آپریشن نہ کرنے کی صورت میں محض 10 فیصد زندگی بچ جانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس لیے مجھے آپریشن کا خطرہ مول لینا پڑا۔ 10 اور 90 فی صد کا یہ فرق کتنا درست تھا؟ یہ تو ڈاکٹر اکبر خان ہی خوب جانتے ہوں گے!
آپریشن روم میں لے جاتے وقت آپریشن کے دروازے تک میں بھائی کے ساتھ موجود تھا۔ کافی دیر مَیں نے بھائی کو آپریشن روم کے دروازے پر روکے رکھا اور بار بار بھائی کا ماتھا چھومتا رہا۔ ان کی زندگی کے لیے دعائیں مانگتا رہا۔ بیماری کے دوران میں بھائی سے قربت اور انس و محبت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ بھائی کی اس تشویش ناک صورتِ حال اور دکھ سے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا۔ مَیں زار و قِطار رو رہا تھا۔ اسپتال کے سٹاف نے مجھے تسلی دی اور بھائی کو آپریشن روم کے اندر لے گئے۔ مَیں شدتِ غم سے نڈھال تھا۔ وہ کیفیت میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ روز ہم خود بھی مریضوں کا آپریشن کیا کرتے ہیں۔ ان سے کنسینٹ لیتے ہیں۔ کوئی بچ جاتا ہے۔ کوئی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ ساری زندگی مریضوں کی خدمت میں گزر گئی۔ روز انسانوں کو تکلیف میں مبتلا بھی دیکھتے ہیں اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں۔ اس وقت بطورِ انسان ہمیں دکھ ضرور ہوتا ہے مگر شدتِ غم اتنا نہیں ہوتا، جتنا احساس اپنے پیاروں کی تکلیف سے ملتا ہے۔ کیوں کہ خونی رشتوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
29 جون 2020ء کو شام پانچ بجے کے قریب جب آپریشن ختم ہوا، تو مجھے ڈاکٹر اکبر خان نے فون کرکے بلایا اور کہا کہ 24 گھنٹے انتہائی تشویشناک ہیں، دعا کیجیے۔ 30 جون 2020ء کو رات گزرنے کے بعد صبح دس بجے ڈاکٹر اکبر خان نے مجھے فون کرکے اپنے آفس میں بلایا۔ مَیں، ماموں زاد بھائی جعفر خان اور ادریس خان، بھائی کا قریبی دوست عمر زادہ بھائی اور گاؤں سے تعلق رکھنے والے بھائی کے دوست احمد ولی جو بھائی کی عیادت کے لیے گاؤں سے تشریف لائے تھے، اکٹھے ڈاکٹر اکبر خان سے ملنے ان کے آفس چلے گئے۔ مجھے حالات کی نزاکت کا احساس تھا۔ اس لیے مَیں سب کو ساتھ لے کر گیا۔ ڈاکٹر اکبر خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا:”Your brother is no more.”
قارئین، مَیں یہ الفاظ کبھی نہیں بھلا پاؤں گا، جب کہ بھائی وینٹی لیٹر یعنی مصنوعی تنفس فراہم کرنے والی مشین کے سہارے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے، سانسوں کی ڈور اب تک نہیں ٹوٹی تھی۔ ڈاکٹر اکبر خان مجھے اس بات پر راضی کرنا چاہ رہے تھے کہ میں وینٹی لیٹر کو ہٹانے کے لیے راضی ہو جاؤں۔ مَیں آئی سی یو میں بھائی کو دیکھنے پھر آیا۔ خود اس کا معائنہ کیا اور اسے زور سے "Pinch”کیا، تو بھائی نے درد محسوس کیا اور بدن کو ہلکا سا ہلانے کی بھی کوشش کی۔ مَیں نے ڈاکٹر اکبر خان کو مطلع کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میرے بھائی کی ایک بھی سانس بحال ہے، مَیں وینٹی لیٹر آف کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ چاہے اس میں ایک دن گزرے، ایک مہینا یا ایک سال۔ شائد ڈاکٹر اکبر خان مجھ پر مزید مالی بوجھ پڑنے کے لیے فکر مند تھا، جہاں ایک دن کا خرچہ ایک لاکھ روپیا تھا کہ مریض کی زندگی تو ویسے بھی ختم ہوچکی ہے، اس کے دماغی خلیے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مر رہے ہیں اور یہ مشین کے سہارے پر ہے، مگر مَیں نے کہا کہ جب تک سانس چل رہی ہے، تب تک وینٹ آف نہیں کیا جائے گا۔ گرچہ مجھے حقیقت کا ادراک تھا، مگر خونی رشتہ اور بھائی ہونے کے ناتے ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ اسی دوران میں وقتاً فوقتاً ہم سب تیماردار بھائی کو دیکھنے آئی سی یو آجایا کرتے تھے۔ حقیقت میں تو صبح دس بجے ہی ہم سب اپنا غم منا چکے تھے، مگر کسی اور کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ بس ذہنی طور پر گھر والوں کو آہستہ آہستہ تیار کرنے کی کوشش کرتا رہا، تاکہ وہ یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے اپنا حوصلہ بڑھائیں۔ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ بھائی کا جسم بے حس و حرکت ہو رہا تھا۔ جب رات دس یا گیارہ بجے کے قریب میں بھائی کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے آئی سی یو گیا، توبھائی کو پھر سے ایک زور دار چُٹکی لگائی مگر اس بار بھائی کا جسم مکمل ساکت ہو چکا تھا۔ مصنوعی مشین اسے سانس ضرور فراہم کر رہی تھی مگر بھائی کی سانسوں کی ڈور مکمل طور پر اب ٹوٹ چکی تھی۔ وہ بے جان جسم میں تبدیل ہو چکے تھے۔ مَیں نے ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر اور نرسوں کو بلا کر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور ان سے کہا کہ میرا بھائی اب اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا ہے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا اور یہ کہ اب آپ لوگ وینٹی لیٹر ہٹا سکتے ہیں۔ چوں کہ یہ ڈی این آر (Do not Resuscitate) کیس تھا،یعنی بطورِ آخری طبی کوشش مریض کو بچانے کے لیے جو سعی کی جاتی ہے، سے منع کیا گیا تھا۔ مجھ سے ایک فارم پر دستخط لیا گیا اور یوں بھائی کی موت کا تصدیق ہوگیا۔
رات ہی کو بھائی کی لاش لے کر شفا انٹر نیشنل اسپتال اسلام آباد سے جب ہم روانہ ہوئے، تو سوات کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے صبح پانچ بجے کے قریب گھر والوں سے رابطہ کرکے اطلاع دی۔اس طرح بھائی ہم سے یوں بچھڑ گئے کہ وہم و گمان بھی نہ تھا۔ یکم جولائی 2020ء کو صبح دس بجے نمازِ جنازہ ادا کردی گئی۔ جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ صحافی دوستوں فیاض ظفر، امجد علی سحابؔ، شیرین زادہ بھائی اور شہاب الدین سمیت سلیم اطہر کا خصوصی شکریہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مجھ سے میرا غم بانٹا۔ جنازے میں شریک رہے، پورا دن ساتھ رہے۔ آپ سب کی پُرخلوص محبت کبھی نہیں بھلا سکتا۔ آپ دوستوں کا بے حد شکریہ!
”انا للہ وانا الیہ راجعون!“ اللہ بھائی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین!
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
بچھڑا کچھ اس ادا سے
