فضل مولا زاہد

28جولائی 2021ء کے دِن صبح صبح نوجوان سرگرم سماجی کارکن عرفان اکبر نے ’’خپل کلی وال کاروان خاندان‘‘ کے وٹس اپ گروپ میں پیغام شیئر کیا کہ کل دو بجے دوپہر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول کوکاری سوات میں کھلی کچہری منعقد ہوگی جس میں ڈپٹی کمشنر سوات خلقِ خدا کے دُکھڑے سنیں گے۔ اپنی کاوشوں کا تذکرہ کریں گے اور عوامی مشکلات کے حل کے لیے ضروری اقدامات کا اعلان کریں گے۔ عرفان نے اپنے پیغام میں تنظیم کے ممبران سے علاقے کے اہم اور بنیادی مسائل کی نشان دہی میں تعاون کی درخواست کی تھی، تاکہ ان کو انتظامیہ کے نوٹس میں لائے جاسکے۔پیغام کا شیئر ہونا تھا کہ ممبران نے دو تین گھنٹوں میں مسائل کے انبار کھڑے کر دیے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ (خصوصی طور پر نوجوان طبقہ) علاقہ کے معاملات پر کتنی گہری اور سنجیدہ نظررکھتے ہیں۔ کارکنوں کے جوش و جذبے، ہمت اور تنظیم کے مقاصد کے ساتھ دلی وابستگی کا سوچ کر، علامہ محمد اقبال کے شہرۂ آفاق نظم کا یہ مصرعہپیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھذہن کے کاریڈور میں گھومنے لگا۔کچہری میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی اور آغاز سے لے کر اختتام تک پوری کارروائی میں بھرپوردلچسپی لی۔ اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر سوات اور اسسٹنٹ کمشنر تحصیل بابوزئی نے ضلعی انتظامیہ کی مؤثر نمائندگی کی جب کہ کئی محکموں مثلاً تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، نادرا، فوڈ سیفٹی، ریوینیو، تعلیم اور کئی دیگر محکموں کے نمائندوں نے بھی اِس میں شرکت کی، جنہوں نے کھلے دل سے لوگوں کے مسائل سُنے اور اُن کے حل کے لیے مروجہ طریقۂ کار کے مطابق لائحہ عمل کا اعلان کیا۔ پینے کی صاف پانی کی نایابی، گلی کوچوں کا کوڑا کرکٹ اور سیوریج کے مسائل، ماحول کی ابتری، تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، فرسودہ زراعت اور زہریلی ادویہ، ناقص خوردنی اشیا خصوصاً بچوں کے لیے مضرِ صحت پاپڑ، چپس نمکو وغیرہ کی کھلے عام فروخت، بجلی کے ناروا بل، حال ہی میں غیر معیاری روڑے اور تارکول سے پکی ہونے والی سڑک کی بدترین صورتِ حال اور ناقص میٹریل سے کناروں کی تعمیر، قبرستان کی زمینوں کی موجودہ صورتِ حال اور قدرتی آبی گزرگاہوں (نیچرل ڈرینج سسٹم) کی آلودگی اور اِن کے راستوں کی ناجائز تجاوزات کی وجہ سے تنگ دامنی کے علاوہ کئی اور اہم مسئلوں پر تفصیل کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اِس گیدرنگ میں ڈپٹی کمشنر صاحب دیگر مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔ سوچا کہ پورے سوات کے دیہی علاقوں کے مسائل ہیں تو ایک جیسے، تو کیوں نہ عمومی آگاہی کے مقصد کے ساتھ چند بہت اہم مسائل ڈپٹی کمشنر سوات کو گوش گذار کرنے کے لیے اس تحریر کا سہارا لیا جائے۔ڈپٹی کمشنر صاحب! انسانی زندگی اور مسائل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ عام لوگوں کے مسائل ومشکلات جاننے اور اُن کو حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ بات اپنی جگہ باعث تسکین ہے۔ مسائل حل ہو نہ ہوں، بس کوئی تو ہوجو عام لوگوں کی بات سننے اوراُن کے ساتھ ’’حالہ دئی‘‘ کا روادار ہو۔جناب عالی! وادیِ کوکارئی جو اَب آس پاس کے درجنوں دیہاتوں کا مشترکہ شہر ہے، ڈسٹرکٹ کچہری کے عقب میں بمشکل پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیدو شریف ٹاؤن جو ہمارے ملاکنڈڈویژن کا دارالخلافہ ہے اور جو خیر سے ہر قسم کے شہری، علمی اور صحت عامہ کی سہولتوں سے مالامال ہے، ہمارا قبلہ رُخ پڑوسی ہے۔ بس ایک چھوٹی سے ننگ دھڑنگ بدنما پہاڑی کا پردہ، جغرافیائی جبر کی صورت بیچ میں حائل نہ ہوتا، تو شاید ہم بھی سیدووال کے لقب سے سرفراز ہوتے اور کوئی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج وغیرہ کے نہ سہی کسی چھوٹے موٹے ہسپتال، ڈگری کالج یاپلے گراؤنڈ وغیرہ کے تو بلاشرکتِ غیرے مالک ہوتے۔ اس سے صرفِ نظر کیجیے یہ جملۂ معترضہ سہی۔ یہ درہ اپنے دامن میں لگ بھگ ایک لاکھ لوگوں کے رہن سہن اور گزر بسر کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ پانڑ کے قصبے سے کلیل وادی تک بیس کلومیٹر میں پھیلا ہوا یہ علاقہ زراعت کے ساتھ ساتھ سیاحت میں بھی بے پناہ امکانات کا حامل ہے۔ چھٹیوں کے دوران میں مینگورہ اور بونیر کے باسی معتدل موسم کا لطف اٹھانے کے لیے یہاں پر یلغار کرتے ہیں۔ ڈاؤن ڈسٹرکٹ اور پنجاب کے لوگ بھی یہاں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں آل اولاد سمیت پڑاؤ کرتے ہیں۔ یہاں کے جنگلات شہر بھر کے آلوددہ فضا میں کمی سمیت گرمی کی حدت میں بھی کمی کا باعث بنتے ہیں۔ لوگوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ کاشتکاری ہے۔ کوئی 75 فیصد لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ آڑو، آلوچہ، ناشپاتی، خوبانی اور پرسیمن کے باغات ہیں یہاں۔ گندم مکئی اور چاول کی فصلیں ہیں۔ یہاں کے پھل اور آف سیزن سبزیاں لوکل منڈیوں سے ہوتی ہوئی پنڈی لاہور اور ملک کے دیگر شہروں تک سپلائی ہوتی ہیں۔ علاقائی سطح پر کاروبار، بیرونی ممالک میں ملازمت اور سیاحت سے بھی کافی لوگوں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ یہاں کے لوگ اعتدال پسند، باشعور اور مہمان نواز ہیں۔ حالیہ زمانۂ جنگ میں انہوں نے امن وامان کے قیام میں خوش اسلوبی اورمنظم طریقے سے اپنا کردار نبھایا ہے اور دوسرے علاقوں مثلاً شانگلہ، بونیر وغیرہ سے نقلِ مکانی کرنے والے لوگوں کی بھرپور خدمت کی ہے۔بدقسمتی سے یہ خوبصورت علاقہ ماضی میں سرکار کی آنکھوں سے ایسااوجھل رہا ہے، گویایہ پاکستان کے جغرافیائی حدود میں شامل نہ ہو۔ یہاں کے مسائل کی طرف کبھی کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ حالاں کہ ریاستِ سوات کے دور میں یہ سب سے اہم علاقہ تھا۔ یہاں کے مسائل میں سرِفہرست مسئلہ صاف پانی کی فراہمی کا ہے۔ فی الوقت جن دو ٹیوب ویلوں سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے، اس کی کوالٹی انتہائی ناقص ہے۔ کیوں کہ اس کی سپلائی کے پائپ زنگ آلود ہو چکے ہیں یا جگہ جگہ ٹوٹ گئے ہیں۔ اس میں گٹر کا آلودہ پانی شامل ہو کر گھروں تک پہنچتا ہے جس کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں، جو لوگ مجبوری کی وجہ سے یہ پانی استعمال کرتے ہیں، ان کے گھر وں کے افراد کا زیادہ تر وقت بیماریوں میں گزرتا ہے اور اِسی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں کے طول و عرض میں پھیلے ٹھنڈے میٹھے پانی کے سیکڑوں قدرتی چشمے اس علاقے کے پہچان ہوا کرتے تھے، جس کا پانی شفا بخش سمجھا جاتا ہے اور شہر کے لوگ بھی یہاں سے کولر اور ڈرم تک بھر بھر کر لے جاتے تھے۔ جنگلات کی بے رحم کٹائی کی وجہ سے بارشیں اور برف باری کم ہوگئی، تو اب زیادہ تر چشمے سوکھ گئے ہیں یا باقی کاپانی بہت کم ہوگیا ہے۔ جب کہ کنوؤں کا پانی جو چند میٹر گہرائی میں نکلتا تھا، اب سیکڑوں فٹ کی دوری پر ہے۔ پانی کی اِس گھمبیر صورتِ حال کے پیشِ نظر یہاں کے لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایشیائی ترقیاتی بنک کی مالی معاونت سے مستقبلِ قریب میں شروع ہونے والی گریوٹی واٹر سپلائی منصوبہ میں وادیِ کوکارئی کو بھی شامل کرنے پر ہمدردانہ غور کیا جائے۔ کیوں کہ یہ علاقہ منگلور اور سنگوٹہ کے پاس واقع ہے، بلکہ ہمارے دنگرام اور سنگوٹہ کا یونین کونسل تک ایک ہے۔ بادی النظر میں اس منصوبے کی یہاں تک توسیع پر اتنے اخراجات متوقع ہو سکتے ہیں جتنے کسی ٹیوب ویل کی کھدائی اور اُس سے سپلائی لائن بچھانے پر آ سکتے ہیں۔ اس سے ایک وسیع علاقے کا دیرینہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔ہم ’’واسا انتظامیہ‘‘ سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔گلی کوچوں کی صفائی کا ذمہ پچھلے دوسال سے علاقائی تنظیم ’’خپل کلی وال کاروان‘‘ کے رضاکاروں نے اپنے اپنے کاندھوں پر لیا ہوا ہے۔ تحصیل میونسپل انتظامیہ اپنے محدود وسائل میں تنظیم کے تعاون سے مہینے میں ایک دو دفعہ دوچار پوائنٹس سے کچرا اُٹھا لیتی ہے لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ مکمل صفائی کے لیے منظم حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اب تو ’’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی‘‘ دیہی علاقوں تک میونسپل خدمات کو توسیع دے رہی ہے، توقع ہے کہ یہ ادارہ شہری سہولتوں کی مکمل فراہمی میں دیہاتوں پر خصوصی توجہ دے گا، تاکہ دیہاتوں سے ہجرت کی بجائے شہر ی لوگ دیہاتوں میں بسنے کی طرف راغب ہو جائیں، جس سے شہر پر آبادی کے بوجھ میں کمی کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ علاقائی تنظیموں اور انجمنوں کے اشتراک اور تعاون سے ’’آن کیس ٹو کیس بیسز‘‘ ایسی حکمت عملی وضع کرسکتے ہیں جو مقامی سماجی نظام کے مطابق ہو اور جس سے تمام شہری یکساں طور پر مستفید ہوں۔ہم نے پڑھا ہے کہ کئی ممالک میں کسی پوائنٹ پرکچرا جمع کرنے والوں کو خصوصی موٹر سائیکلیں دی جاتی ہیں اور اُن کو وزن کے حساب سے رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے، جس سے صفائی کے علاوہ بھکاریوں کی تعداد میں بھی کافی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ ماحول کی صفائی میں شہریوں کی شرکت اور دلچسپی بڑھانے کے لیے کوئی انعامی سکیم متعارف کرانے پر بھی سوچا جا سکتا ہے۔ علاقائی تنظیمیں اِس سلسلے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔یہ سطور لکھنے کے دوران میں سوشل میڈیا پر ایک خبر نظر سے گزری کہ متحدہ عرب امارات مملکت میں پیدا ہونے والے کچرے کو ضائع کرنے کے بجائے اس سے بجلی پیدا کرنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگائے گا۔ کاش! ہم بھی محدود لیول پر ہی سہی، ایسے کسی تجویز پر ابتدائی کام شروع کرکے پورے ملک کو ایک ماڈل کے طور پرپیش کرنے کی اہلیت پیدا کرسکیں۔تعلیم کے میدان کا جائزہ لیں، تو لگ بھگ چالیس ہزار بچے بچیاں پڑھنے سیکھنے کے عمر میں جی رہے ہیں لیکن اُن کے لیے مناسب تعلیمی یا تربیتی ادارے موجود نہیں۔ پچانوے فیصد بچیاں تو پرائمری یا مڈل کلاس کے بعد مزیدتعلیم کے حصول کو خیر آباد کہہ دیتی ہیں، اسی طرح 90 فیصدلڑکے بھی میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے حصول کو سہانا سپنا سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔کیوں کہ اُن کو مزید تعلیم کے مواقع دستیاب نہیں۔ یہاں پرکوئی ڈگری کالج تو دور کی بات، سوائے ایک کے کوئی ہائیر سیکنڈری سکول تک موجود نہیں، تو بچے خاک تعلیم حاصل کریں گے؟ جب کہ صاحبِ ثروت لوگوں کے بچے بچیاں مینگورہ اور دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں داخلے لے لیتے ہیں۔ یہاں پر گرلز اور بوائز دونوں کے لیے چار ہائی، دو ہائر سیکنڈری اور کم ازکم چار ڈگری کالج کھولنے کی اشد ضرورت ہے۔صحت کا شعبہ سب سے زیادہ اہم ہے، لیکن یہاں صرف ایک ڈسپنسری ہے، جس کی بلڈنگ بھی والیِ سوات دور کی ہے، جو اَب قابلِ استعمال نہیں۔ لوگوں کو معمولی معمولی بیماریوں کے ٹیسٹ اور علاج کے لیے شہر کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک ایسے ہسپتال کی تعمیر بہت ضروری ہے، جس میں مریضوں کے علاج معالجے کے لیے تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ کوئی بیس کلو میٹر سڑک پر تارکول کا کام پچھلے پانچ سال سے جاری ہے، لیکن یہ مکمل ہونا تو دور کی بات، جو کام کیا گیا ہے، اس کی دوبارہ مرمت کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے، جس کی فوری انکوائری کی ضرورت ہے۔ جن ٹھیکیداروں نے ’’سب سٹینڈرڈ‘‘ کام کیا ہے، اُن کو بلیک لسٹ کرکے بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور خراب ہونے والے حصوں کی فوری مرمت کی جائے، تاکہ یہ سڑک مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔اس لاوارث وادی میں ایک ندی بھی موجودہے، جو اَب ندی کے نام پر کلنگ کا ٹیکا ہے۔ یہ کلیل چنار کی پہاڑیوں سے نکل کر جامبیل کوکارئی سے ہوتی ہوئی مینگورہ پولیس سٹیشن کے سامنے سے گزرتے ہوئے دریائے سوات سے ملتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس ندی کی خوبصورتی اور بہتے پانی کی موجوں کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے، یہاں خوبصورت آبی پرندے کھیل تماشا کرتے تھے، لوگ مچھلیاں پکڑتے اور طلبہ اس کے کناروں میں موجود درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر سکون سے پڑھائی میں مشغول ہوتے تھے۔ پاکستانی ریاست کی ریاستِ سوات تک پھیلنے سے پہلے پہاڑوں اور قدرتی جنگلوں سے نکلی ہوئی یہ ندی اتنی صاف و شفاف ہوا کرتی تھی کہ لوگ اس کا پانی پینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کے سمگلر مافیا نے محکمۂ جنگلات کی ملی بھگت سے وہ جنگل ڈکار کر پہاڑیوں کو عریاں کر دیا۔ نتیجے میں بارش و برف باری رک گئی۔ قدرتی چشمے سوکھ گئے، تو انجام یہی حال ہونا تھا جو اس ندی کا اب ہے۔ اب وہ کچرا گھر بن کر محض ایک نالے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ تو ایک طرف، اب توعام لوگ اِس کے جغرافیائی حدود پر بھی قابض ہو رہے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے ۔ اگر وقت پر اِس رجحان کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی، تو مستقبلِ قریب میں شاید اِس قدرتی ندی کا نام و نشان مٹ جائے، جس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی پولیس لوگوں کو حکم دیں کہ وہ اپنے گھروں کے کوڑا کرکٹ سے ندی کو مزید آلودہ نہ کریں۔ دوم، قبضہ مافیا سے ندی کا قدرتی راستہ واگزار کروا کر محکمۂ جنگلات اور زراعت کے ذریعے ان جگہوں پر جنگلی اور پھل دار ہر دو اقسام کے پودے لگوائے جائیں۔جنابِ عالی! واپڈا والوں کی دو نمبری کا کیا رونا! یہ ظالم، عام لوگوں کو یونٹس کے استعمال میں میسر سرکار کی رعایت پر ڈاکا ڈالنے کے لیے نت نئی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میٹر ریڈروں کی کمی کا بہانہ بنا کر ایک دو مہینے کے لیے برائے نام بل بھیجتے ہیں اور پھر تیسرے چوتھے مہینے میں غریبوں پر بجلی گرا کر تمام رعایت وصول کرکے سرکار کے کھاتے میں اپنی چوری اور لائن لاسز کے بدلے میں بھرتے ہیں۔ یہ بات صرف یہاں کے عوام نہیں چرند پرند، مکھی مچھر، مال مویشی ، پہاڑاور پتھر بھی جانتے ہیں۔لوڈ شیڈنگ میں بھی جتنی دو نمبری دیہاتوں میں ہوتی ہے، اس کا کیا رونا! بس جہاں دِل کیا، وہاں لائن فالٹ ڈی کلیئر کرکے بجلی کا گلا گھونٹتے ہیں۔ ان حالات میں واپڈا والوں کے وارے نیارے ہیں، جس کو پرائیوٹائز کرکے ہی اِن قباحتوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا فرض ہے کہ ان کے بڑوں کی سرزنش کرے۔ ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں۔ سرکار کی دی ہوئی رعایت کو ناجائز طور پر ہتھیانے والوں کا احتساب کریں، لوٹی ہوئی رقم کو اُن کی جیبوں سے وصول کریں اور اُن کو بتائے کہ عام لوگ اُن کی چوری کے طور طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں دونمبر خور و نوش کی اشیا کی فروخت عام ہے۔بچوں کی ٹافیاں، چپس اور پاپڑ وغیرہ تو زہر ہیں، جو کھلم کھلا فروخت ہو رہے ہیں۔ اس عمل پرنظر رکھنے کے لیے محکمۂ فوڈ سیفٹی کا ایک مستقل نمائندہ یہاں تعینات ہونا چاہیے۔ اسی طرح نادرا اور محکمۂ زراعت کے نمائندوں کو پابند کیا جائے کہ وہ مہینے میں کم از کم پانچ دن یہاں پر اپنے فرائض انجام دیں۔ علاقے کی تنظیم اُن کے کام میں آسانی لانے کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔ڈپٹی کمشنر صاحب! جن مسائل کی نشان دہی اِن سطور میں کی گئی ہے، وہ صرف گاؤں کوکارئی کے نہیں پورے ضلع کے لوگ ایسے ہی مشکلات سے د وچار ہیں۔ شدید زلزلوں، بدامنی، سیلابوں، وبائی امراض اور طویل خشک سالیوں کے مارے یہاں کے مصیبت زدہ عوام کی مشکلات کا اندازہ آپ بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ان میں کئی ایشوز ایسے ہیں، جو انتظامی حکم کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں، جب کہ بعض مسائل کے حل کے لیے مسلسل ربط و مشاورت کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسی طرح کی عوامی کچہریاں ہر مہینے کی انتظامی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں۔ بے شک یہ مرکزی سطح پر ضلع کچہری میں منعقد ہو ، جس میں عوام کے ساتھ تمام محکموں کے سربراہ شریک ہوں۔ سوال و جواب ہوں۔ تبادلۂ خیالات ہو اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اداروں کے کردار کا باقاعدہ جائزہ ہو۔ اسی بنیاد پر اداروں کے بڑوں کے جزا و سزا کے عمل کی شروعات ہوں، تب ہی اِس پژمردہ ماحول میں کسی بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔ مرحوم اشفاق احمد بابا کی یہ دعا یہاں نقل کرنے کی جسارت کرتے ہیں: ’’اللہ تعالا آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔‘‘ آمین!آسودہ حال ہونا اور آسودگی بانٹنا بہت بڑی بات ہے ۔

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔