پشاور میں عامر تہکال نامی شخص کو پشاور تہکال پولیس کی جانب سے برہنہ کرکے غلیظ گالیاں دی گئیں۔ واقعہ دراصل یہ ہے کہ عامر تہکال پشاور کے ایک شادی ہال میں وبا سے پہلے منیجر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کی نوکری چلی گئی، جس سے وہ کافی دلبرداشتہ ہوگیا۔ اس نے حالات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف ایک ویڈیو دی، جس میں پولیس کو گالیاں دی گئی تھیں۔ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس نے غلط کیا تھا، جس کے خلاف پشاور تہکال تھانہ پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عامر کو برہنہ کرکے زدو وکوب کیا اور اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ اب اس عمل کے خلاف سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا پولیس پر غصہ کافی نفرت اور حقارت پر مبنی ہے۔
اب اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس کا لازمی اثر مجموعی پولیس ڈیپارٹمنٹ پر پڑتا دکھائی دے رہا ہے اور جس سے حکومت کی پولیس کے مطابق دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے۔ اگرچہ مذکورہ پولیس اہلکاروں کے خلاف سطحی قسم کے اقدامات کیے گئے ہیں، اور ان پر پرچہ کرکے معمولی قسم کی دفعات شامل کی گئی ہیں جس سے مذکورہ پولیس والوں کی آسانی کے ساتھ ضمانت ہوسکتی ہے۔ اس حوالہ سے میراخیال ہے کہ یہ سراسر بد نیتی پر مبنی ہے۔
ولیس قانون اور عوام کی محافظ اور ایک لحاظ سے عوام کی خادم ہے۔پولیس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کو جرم کی روک تھام،تفتیش اور عوامی نظم و نسق اورامن وامان کی بحالی کے لیے مؤثر انداز میں انجام دیں۔ پولیس رولز 2017ء خیبر پختونخواکے مطابق جمہوری اداروں کے ذریعے پولیس کو عوام کو جوابدہ کرنے کے لیے اورغیر سیاسی بنانے کے لیے نگرانی کا طریقہئ کار دیا گیا ہے۔ اس طرح قانونِ مذکورہ میں پولیس کو آپریشنل، انتظامی اور مالی خودمختاری دی گئی ہے۔ جرائم میں کمی لانے کے لیے پولیس کی ٹریننگ عمل میں لائی جاتی ہے، لیکن سرِدست حالات میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہی پرانا طریقہئ کار ہے۔
دوسری طرف ضابطہئ فوجداری، تعزیراتِ پاکستان اور دوسرے جرائم سے متعلق مخصوص قوانین میں پولیس کو لامحدود اختیار ات دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے مذکورہ بالا فارمولا الٹا ہوگیا ہے۔ جو فورس عوام کی خادم تھی، وہ متکبر اور مطلق العنان بن کر رہ گئی۔ اختیارات میں زیادتی کی وجہ سے ”لا انفورسمنٹ ایجنسیز“ عام لوگوں کو بلڈی سویلین خیال کرتی ہیں۔ تھانہ میں جو رویہ عام سائلین اور شکایت کنندگان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اس کا تصور یا تذکرہ کرنا محال ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سارے پولیس اور اعلیٰ حکام کرپٹ اور رشوت خور ہیں، مگر ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سرے سے انسانوں کو انسان خیال ہی نہیں کرتے۔ ان کو مطلوبہ ٹریننگ ہی نہیں ملتی۔ ان کی سکولنگ پر توجہ نہیں دی جاتی۔ بھرتیاں اکثر اوقات سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ ان کو تفتیش کا پتا ہوتا ہے اور نہ مقدمہ کو بنانے کے لیے دستیاب وسائل ہی ان کو فراہم ہوتے ہیں۔ دراصل جب طاقت اور اختیار میں توازن پیدا نہیں ہوتا، تو اس کے معاشرے اور عوام پر خراب اثرات پڑتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں پولیس کیس اس وقت بناتی ہے، جب وہ اپنی تفتیش مکمل کرکے کسی بھی ملزم پر تمام واقعاتی اور تائیدی ثبوتوں کی بنیاد پر دعویداری کرکے ملزم پر مقدمہ ثابت کرتی ہے۔ بعد ازاں ان کو عدالتوں اور قانون کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا قوانین کے تحت پولیس قابلِ دست اندازی جرائم میں فوری ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں یا کسی بھی شخص کی شکایت پر درج کرتی ہے۔ نا قابلِ دست اندازی جرم میں پولیس کو مجسٹریٹ یا متعلقہ افسر مجاز سے اجازت لینا درکار ہوتا ہے۔ جرم ہونے کی صورت میں فوری تفتیش اور تحقیق کا آغاز ہوتا ہے۔ غیر قانونی ضبطی، خلافِ قانون کسی کے گھر میں گھسنا وغیرہ مروج قوانین کی رو سے جرم تصور ہوتا ہے۔ ملزم یا مستغیث کے کہنے پر جائے واردات کا نقشہ موقع مرتب کردیا جاتا ہے۔ گواہان کے بیانات قلمبند ہوتے ہیں۔ فردِ مقبوضگی بنایا جاتا ہے۔ پارچات اور آلہئ جرم قبضہئ پولیس کیا جاتا ہے۔ آرمڈ ایکسپرٹ کو آلہئ جرم کو بغرضِ جرم استعمال ہونے کی تصدیق کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔مراسلہ، نقل مد اور روزنامچہ ڈائری بنائی جاتی ہے۔ خون کے دھبوں کو کلیکٹ کرکے فورنسک ایویڈنس کے لیے لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ فون ٹریسنگ کی جاتی ہے۔ جائے واردات کو سیل کردیا جاتا ہے۔ پوسٹ مارٹم اور مجروحین کی میڈیکل ڈاکٹری چیکنگ کرکے زخمات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ یہ سب قانونی ذمہ داریاں ہیں جو پولیس فورس کو ضابطہئ قوانین کے اندر سرانجام دینا ہوتی ہیں۔ ان میں جر م کے اوقات، فاصلہ از تھانہ وغیرہ اور جائے وارادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
درجِ بالا ضابطہ اور اصول کے بغیر پولیس کا ہر ایک قدم غیر قانونی تصور ہوتا ہے، جس کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔ تاہم پولیس کو جو ذمہ داری قانونی طور پر ادا کرنا ہوتی ہے، اکثر و بیشتر وہ پسِ پشت ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف خود ساختہ اور فرضی مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ کسی ملزم کو علاوہ مجسٹریٹ کے اجازت کے بغیر تھانہ میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھا جاسکتا۔ بااثر افراد کہ سفارش پر مقدمات قائم ہوتے ہیں۔ سائلین کو سالہا سال کورٹ کچہری کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ غلط کیس بنانے کے پاداش میں پولیس کے خلاف محکمانہ یا عدالتی کارروائی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اگرچہ مذکورہ قوانین میں پولیس کے خلاف کچھ سے دیکھا جائے، تو پولیس کے بنائے گئے تقریباً سبھی مقدمے بوگس، سازشی، خلافِ حقیقت، خلافِ قانون اور خلافِ انصاف ہوتے ہیں۔
عامر تہکال کے مقدمے میں جوڈیشل انکوائری، پولیس معطلی اور گرفتاری، مقدمے کا ہر گز حل نہیں۔ میرا خیال ہے کہ پولیس رولز جو کہ انگریز دور کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، جو غلام عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، میں اب کچھ ترمیمات ہوئی ہیں اور نئے پولیس رولز2017ء خیبر پختونخوا بنائے جا چکے ہیں۔ لیکن مذکورہ ترمیمات اور قوانین سے پولیس کے معیار اور کلچر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ دعوے ویسے ہی کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں کیس اس کے شاہد ہیں۔ اس لیے جدید پولیس رولز بنانے کے لیے حکومت کو قانون سازی پر توجہ دینی چاہیے۔ کم ازکم پولیس فورس کو مذکورہ قوانین کی نسبت سختی کے ساتھ عمل پیرا کیا جاسکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک مستعد پولیس فورس، عدالت، اسٹیک ہولڈرز اور دیگر محکموں کی سفارشات پر مبنی ایک نیا پولیس رول بنانا چاہیے، جس میں پولیس کو ریگولیٹ کرنے کے علاوہ پولیس کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب ہونا چاہیے۔ پولیس کی بھرتی سے لے کر اپوائنٹمنٹ کے طریقہئ کار، ضابطہئ اخلاق، رویہ اور سکولنگ وغیرہ پر غور کیا جائے۔ اس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے۔ پولیس کے لیے کونسلنگ اور تفتیش کے طریقہئ کار از سر نو جائزہ لے کر قانون مرتب کیا جائے۔ ان کودستور اور اخلاق پر مبنی ٹریننگ دی جائے۔ حالات و واقعات کو سمجھ کر عوام کی امنگوں کے مطابق قانون تشکیل دیا جائے۔اس طرح ہمیں عوامی سطح پر پولیس ریفارمز کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔ یوں ہم عامر تہکالی کو انصاف دلاسکیں گے۔ برائے نام دفعات اورغیر قانونی و ناجائز کیس بنانے کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ تاہم سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر غور