فضل محمود روخان

وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ لوگوں میں ’’باچا لالا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ والدین نے اُن کا نام سیراج الدین خان رکھا تھا…… لیکن اپنے نام کے ساتھ انہوں نے لفظ ’’سواتی‘‘ کا اضافہ کیا۔ریاستِ سوات کے والی کے بڑے مخالف تھے۔ مخالفت میں ڈھیر سارے کتابچے بھی شائع کیے۔ والیِ سوات نے اُنہیں مارا پیٹا…… لیکن وہ مخالفت سے باز نہیں آئے۔ والیِ سوات نے انہیں علاقہ بدر بھی کیا۔ انہوں نے 8 سالہ جَلاوطنی کی زندگی لاہور اور چارسدہ میں گزاری۔ اپنی جلاوطنی کو انہوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے جب سمن آیا، تو باچا لالا کے والد شیرزادہ خان اور باچا لالا کے بھائی کشور خان مشیر کے کہنے پر انہوں نے اپنا کیس واپس لے لیا۔لاہور میں ان کا پڑوسی اخبار میں کام کرتا تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ باچا لالا نے اس سے خوب کام لیا۔ لاہور سے مخالفانہ خبریں والیِ سوات کی حکومت کے خلاف تواتر سے شائع ہونی لگیں۔ مغربی پاکستان کی اسمبلی لاہور میں اس کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ باچا لالا سوات میں ایک علاقے میں تحصیل دار کے عہدے پر فائز تھے۔ کسی پر جرمانہ نہیں لگاتے تھے، بلکہ فریقین میں صلح کرواتے تھے۔ تحصیل سے مخالف فریق آپس میں دوست بن کر ہنسی خوشی واپس لوٹتے تھے۔ تحصیل کے سرکاری عملے کی تنخواہیں وہ والیِ سوات سے طلب کرتے تھے۔باچا لالا کے والد شیر زادہ خان والیِ سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کے قریبی دوست تھے۔ اس وجہ سے والیِ سوات، باچا لالا کا خیال رکھتے تھے۔ ریاستی دور میں باچا لالا کی ایک پاکستانی سیاسی پارٹی سے وابستگی تھی۔ والیِ سوات کی جانب سے ریاستِ سوات میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں پر پابندی تھی۔ اس مخالفت کی وجہ بھی سیاسی پارٹی کی رکنیت ہی تھی۔ والیِ سوات نے اور بھی بہت سے لوگوں کو اس جرم میں سوات سے بے دخل کیا تھا، لیکن باچا لالا خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھے۔سنگوٹہ پبلک سکول کی تعلیم کی مخالفت میں باچا لالا پیش پیش تھے۔ وہ بچوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ اصلاحِ احوال کے لیے مساجد میں تبلیغ بھی کرتے تھے۔ معاشرے میں اُن کی اچھی خاصی عزت تھی۔ باچا لالا کی مذکورہ خوبیوں نے مجھے اُن تک پہنچایا۔ مَیں والیِ سوات کا دلدادہ تھا۔ اکثر میں اُن کے سامنے والیِ سوات کی اچھائیاں بیان کرتا۔ تو وہ مجھے کہتے: ’’تم نے والیِ سوات کو حکمرانی کے زمانے میں قریب سے نہیں دیکھا ہے۔ تم نے اُنہیں اس وقت دیکھا ہے جب اُن کی حکومت ختم ہوچکی تھی۔‘‘باچا لالا کی باتوں کے باوجود میرے دل میں والیِ سوات کے لیے نرم گوشہ برقرار رہا۔ مَیں اور فضل ربی راہی صاحب باقاعدگی سے باچا لالا سے ملتے تھے۔ ہم اُن کے حجرے میں عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھتے تھے اور شام ڈھلے گھر آیا کرتے تھے۔ وہ خود بھی ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ کبھی راہی صاحب کے ہاں اُن سے ملاقات ہوتی تھی اور کبھی وہ میرے ہاں تشریف لاتے تھے۔ وہ عید سے ایک دن پہلے ہمیں مبارک باد دینے آتے اور ہم عید کے روز حاضری دیتے۔ ہمارا اُن سے جب تعلق قائم ہوا، تو انہوں نے کبھی ہمارے سامنے کسی سیاسی پارٹی کی مخالفت یا حمایت کا ذکر نہیں کیا۔ایک دن وہ کسی بھکاری کو بھیک دینے کے لیے اپنی جیب سے پرس نکال کر پیسے دینے لگے کہ بھکاری اُن کے ہاتھ سے پرس چھین کر بھاگ نکلا۔ باچا لالا اُسی جگہ کھڑے رہے۔سردیوں میں اُنہیں سردی بہت لگتی تھی۔ ایک دفعہ انگیٹھی کے قریب بیٹھکر آگ تاپ رہے تھے کہ اُن کی چادر کو آگ لگ گئی۔ ان کو پتا ہی نہیں چلا۔ جب آگ نے اُنہیں جلانا شروع کیا، تب انہوں نے چادر کو خود سے دور پھینک دیا۔ایک دفعہ راہی کا کچھ کام پڑگیا۔ انہوں نے ہمیں ایک اسمبلی ممبر سے ملوایا اور اُن کو انہوں نے تاکیداً کہا کہ روخان اور راہی میرے نہایت قریبی دوست ہیں۔ آپ راہی صاحب کا کام کردیجیے۔ ہم نے اسمبلی ممبر کے کہنے پر سخت گرمی میں پشاور کا سفر کیا لیکن پھر بھی انہوں نے وہ کام نہیں کیا۔ ہم دل ہی دل میں کڑھتے رہے کہ اگر آپ نے کام نہیں کرنا تھا، تو ہمیں مفت میں پشاور بلانے کی تکلیف کیوں دی؟ مجھے اُس سے سبق ملا کہ سیاسی لوگوں کے وعدوں اور اُن کی باتوں پر یقین کبھی بھی نہ کرنا۔باچا لالا کا ایک ہی بیٹا ہے خضر حیات خان، جو خود ڈاکٹر ہے۔ ایک دن اُن کے بیٹے کو ہارٹ اٹیک ہوا، وہ ہسپتال میں زیرِ علاج تھا۔ ہم سارا دن اللہ میاں سے اُن کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔ آخرِکار اللہ میاں نے ہمارے دعائیں قبول کیں اور خضر حیات خان کی جان بچ گئی۔ایک دن باچا لالا سخت غصے کے عالم میں مجھ سے جھگڑنے کے لیے آئے۔ ہمارے درمیان باتیں شروع ہوئیں۔ یوں اُن کی غلط فہمی دور ہوگئی اور مطمئن ہوکر چلے گئے۔ایک ادبی پروگرام میں ڈاکٹر فتح مند خان جی بحیثیتِ مہمان خصوصی اور سراج الدین خان سواتی صدر محفل تھے۔ میرے نہایت قابلِ قدر کامران خان بھی شریک محفل تھے۔ میری کتاب ’’تماشائے زندگی‘‘ کی تقریبِ رونمائی تھی۔ کامران خان میری خاطر اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے حاضر ہوئے۔ ہمارے پروگراموں میں باچا لالا خصوصی طور پر شریک ہوتے تھے۔ کامران خان صاحب تو ہمارے ادبی پروگراموں کی جان ہوا کرتے تھے۔ اللہ بخشے، اب سب نہیں رہے۔ باچا لالا کی قبر پر جب میں دعا کے لیے حاضر ہوتا ہوں، تو مجھے ایک عجب احساس ہوتا ہے۔ قریب ہی اُن کا گھر بھی ہے۔ جہاں ڈاکٹر خضر حیات خان اپنے بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں اور باچا لالا قبر میں ہیں۔ واقعی دنیاوی زندگی ادھوری ہے۔