ایڈوکیٹ نصیراللہ

اس وقت مملکتِ خداداد کو اتفاق و اتحاد کی جتنی ضرورت ہے، شائد ہی کسی اور وقت تھی۔ ہر ایک کام، عمل، حادثہ اور تحریک کے اپنے مثبت اور منفی نتائج اور اثرات ہوتے ہیں۔ ڈر اور خوف سے لرزنے والی اقوام زیر و زبر ہوکر تباہ ہوجاتی ہیں۔ کورونا کے منفی اور مثبت نتائج اور اثرات سے سیکھنا اور ان نتائج جو جیسے بھی ہوں، کے خلاف سختی سے عمل کرنے کا وقت ہے۔ عالمی کاروباری ادارے، ڈبلیو ٹی او، کاروباری منڈیاں، وال سٹریٹ اور ملٹی نیشنل کاروبار اب سکڑ چکے ہیں۔ گلوبل اکانومی کا تصور چندھیا گیا ہے۔ساری دنیا بحرانوں کا شکار ہوچلی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں ملکی معیشت پر انحصارکرنا ہے۔ سرمایہ دار ممالک اپنے لیے بہتر دوستوں اور منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔ ان کو راستہ ہمارے واسطے ہی ملنے کا امکان ہے۔
حالیہ بحران میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ معیشت پھر سے سنبھالی جاسکتی ہے، لیکن انسانی اموات کی تلافی پھر ممکن نہیں ہوگی۔ یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا میں معیشت اور مجموعی اقتصاد ی صورتحال کافی حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ ان حالات میں معیشت کی رٹ لگانا مناسب نہیں۔ اس کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بہر طور لاک ڈاؤن کے اچھے نتائج شروع ہوچکے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ملکی معیشت کے لیے جتنی تیاری کرنا تھی، وہ ہوچکی ہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔ لوگوں پر معیشت کے ثمرات کوبانٹنے کا وقت ہے۔ تاہم نئے طریقہئ کار کے ذریعے نئے منصوبے اور پرانے منصوبے تمام اسٹیک ہولڈرز کوساتھ ملا کر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ نمٹانا چاہئیں۔مزید رسک لینا اور تجرباتی منصوبے مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ اقوامِ متحدہ میں دیگر اقوام اور ممالک کے ساتھ مل کر معاشی منصوبہ بندی اور معاشی تنازعات کے حل کے لیے قوانین بنائے جائیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے بین البر اعظمی بینکوں سے پاکستان کے قرضوں کی معافی کی درخواست کی جائے۔ دوست ممالک سے قرضوں کی واپسی کے طریقہئ کار میں نرمی کا استفسار بھی ضروری ہے۔ فی الفورکولیٹرل ڈمیج کے اِزالہ کے لیے اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ دائر کیا جانا لازمی امر ہے۔
ہماری قیادت کو چاہیے کہ وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے اور عالمی ترقی یافتہ ممالک، آئی ایم ایف ورلڈ بینک وغیرہ سے مزید امدا د اور قرضوں کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ اس لحاظ سے ملک کی کافی بدنامی ہوچکی ہے۔مزید برداشت سے باہر ہے۔ من حیث القوم ہم کو سادگی اختیار کرنا ہوگی۔ مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ روس اور اوپیک ممالک نے پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ دیگر توانائی کے مصنوعات میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اپنے توانائی کے ذخیروں پر فوکس کرنا چاہیے۔ ذرا سوچیے تو سہی، کیا نہیں ہے ہمارے پاس۔ بس سیاست میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاست کا بعض دفعہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ کسی کام پر مثبت تنقید کیا جائے، تاکہ کام میں مزید نکھار پیدا ہوسکے اور بروقت پایہئ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ کام کا انداز جداگانہ ہوسکتا ہے، لیکن مقصد ایک ہونا چاہیے۔
ملکِ خدادا کے لیے اس چیلنجنگ دور میں بہتر فیصلہ سازی کی ضرورت پہلے سے زیادہ موجود ہے۔ صوبوں سے بہتر کوآرڈی نیشن حالات کو مزید خراب ہونے سے بچا سکتی ہے۔ قانون کے عملی نفاذ کے لیے پولیس اور اعلیٰ عدالتوں کو مینڈیٹ دیا جانا چاہیے۔ آن لائن مقدمات کو سننے کا طریقہئ کار بنایا جانا بھی ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی خاطر آن لائن کورسز کا اجرا اور طریقہئ کار وضع کیا جانا چاہیے۔ عوامی اجتماعات پر پابندی ناگزیر ہوچکی ہے۔ علما کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ قانون کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ میری رائے ہے کہ جو کوئی فرد کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو، ان کو ہسپتالوں میں بطورِ سزا کورونا مریضوں کے آئی سولیشن وارڈز میں محکمانہ آفیسروں کے ماتحت کام پر لگایا جائے۔ ان سے نالوں،دریاؤں، ہسپتالوں اور سڑکوں کی مرمت اورصفائی کا کام لیا جائے۔ میلے، منڈیوں میں حفاظتی تدابیر اختیار کرکے بیوپاریوں کو کام کرنے کی اجازت ضروری امر ہے۔حکومت کا کام سپورٹ کا ہے۔ ہر وقت انتظامیہ اور صوبوں کے معاملات میں مداخلت حکومت کے دور رس اقدامات کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ عدالت، حکومت پر تنقید کے بجائے عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے دیرپا فیصلے کرے۔ حکومت کو عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا۔ عدالتی امور خالصتاً عدالت کے سپرد ہونے چاہئیں۔ عدالت کے فیصلوں کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا دانشمندی ہرگز نہیں ہوسکتی۔انتظامیہ کے فیصلوں میں حکومتی اور عدالتی مداخلت سے ملکی اداروں میں تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ اداروں اور حکومت کو مل کر ون پوائنٹ ایجنڈا پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے۔
تنازعات کے بہتر سیٹلمنٹ کے لیے انتظامی اور اداراتی امور میں مداخلت سے بہتر ہے کہ وفاقی حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر گفت و شنید کرکے اپنے معاملات میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے میں پہل کرے۔ از بس ضروری امر ہے کہ کسی بھی طرح (جس طرح قانون اجازت دے) آرڈیننس کے ذریعے لوکل باڈیز کو وقتی طور پر بحال کیا جائے کہ اس سے آسانی پیدا ہوجائے گی اور عوامی مشکلات کم ہوں گی۔
اس بحران میں قانون سازی کے لیے بھی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز بنائے جانے چاہئیں۔ نئے حالات کے تناظر میں بدلتی دنیا کا مقابلہ کیا جائے۔ سہولیات دیتے وقت احتیاط، میرٹ اور انصاف کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ حکومت کو غریبوں کی مشکلا ت کا اندازہ کیا جانا چاہیے۔
ملکی اور عوامی سیاست میں کسی کی نیت پر شک کرنا گنا ہ سمجھتا ہوں۔ طریقہئ کار میں تبدیلی اور اختلاف ہوسکتا ہے۔ نتیجہ دونوں کا عوامی فلاح اور بہبود ہوتا ہے۔ دلیل کو سامنے رکھ کر فیصلوں کا رواج بنانے کا وقت ہے۔ سیاست دانوں کی سیاست عوام کے لیے ہوتی ہے۔ ان کو پتا ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے پھر کھڑا ہونا ہے اور ملکی ترقی کا بیڑا پار کرنا ہے۔ انسان واقعتا خود غرض واقع ہوا ہے۔ لیکن ایسے انسانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنا نوالا دوسرے غریبوں اور لاچاروں کے لیے چھوڑدیتے ہیں۔ یہ ایسا وقت ہے کہ ہر کسی کو موت کی بلا کا سامنا ہے۔ پوری قوم غمگین ہے۔
ہائے افسوس!کعبۃ اللہ، روضہئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بند ہوچکے، مندر، گرجا گر اورعبادت خانے بند ہوچکے۔ سڑکیں، گلی کوچے اور بازار بند ہوچکے، پورا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ خدا ترسی اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ایک قومی معیشت بہ الفاظ دیگر قومی حکومت اورا فہام و تفہیم سے ہی اس وبائی بحران اور آنے والے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر حکومت نیک نامی کما سکتی ہے۔ شفافیت کے لیے مکینزم بنایا جانا چاہیے۔ جو کہ پہلے سے ہی شفافیت اور میرٹ پر عمل درآمد کے لیے ادارے موجود ہیں۔ ان اداروں پر اعتماد سے ہی ترقی اور چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ حکومت مینڈیٹ کو اپنے ساتھ رکھے، لیکن کام کے تقسیم کار کی غرض سے اپوزیشن کے ساتھ دیرپا سٹینڈرڈ آپریشن پروسیجر زسے ملکی معیشت کی نیا پار لگاسکتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بلاامتیاز اس مد میں ویلکم کیا جانا چاہیے۔ مداخلت اور منفی تنقید اور غیرموزوں سیاست سے اجتناب کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ طنز کے نشتر بند ہونے چاہئیں۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کو اپنے ساتھ ملا یا جائے۔ درخت لگائے جائیں۔سڑکیں بنائی جائیں۔ انفراسٹرکچر بہتر کیا جائے۔ نئے کارخانے بنائے  جائیں۔ ہائے وے اور سی پیک پر توجہ دی جائے۔معیشت مستحکم کی جائے۔ کنسٹرکشن بزنس کو نئے اورجدید خطوط پر مزدوروں کاوسیلہ رزق بنانے کے لیے سر جوڑ کر کوششیں کی جائیں۔ ایس او پیز کے تابع بنیادی معیشت کو بحال کیا جائے۔ میرے خیال کے مطابق اب برآمدات کو جتنا ممکن ہو، کم کیا جائے اور درآمدات کو سرے سے ختم کیا جائے۔ ملکی غلہ اپنے پاس رکھیے کہ یہ مستقبل قریب میں ہمارے کام آنے والا ہے۔ زائد غلہ جات، دیگر ڈاکٹری، امدادی سامان، ہنر مند وفود جس بھی شکل میں ہوں، کو انسانی ہمدردی کے لحاظ سے امدادی شکل میں پڑوسی ممالک کو بھیجنا چاہیے کہ یہ بھی خدا تعالی کا کنبہ ہیں۔ اپنے آپ پر رحم کریں،مخلوق خدا پر رحم کریں۔ و ما علینا الالبلاغ!