محبت نہ ہوتی، تو شائد اس دنیا کی تخلیق بھی نہ ہوتی۔ محبت ہی وہ واحد قوت ہے جو زمین پر انسانوں کا دل جیت لیتی ہے اور آسمان پر رب کی رضا کا سبب بن جاتی ہے۔ اور یہ محبت جب ملک سے ہو، تو پھر تو وہ ساری قوتیں ہی زندگی میں آجاتی ہیں جو ایک عام انسان کو خاص بنا دیتی ہیں۔ ملک سے محبت لازمی ہے اور یہی ہمارا ایمان ہے کہ ہم پاکستان کی خاطر جئیں گے اور پاکستان ہی کی خاطر مریں گے۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں، یہ وطن نہ ہوتا، تو یہ خوبصورت زندگی نہ ہوتی۔ پھول صحراؤں میں نہ کھلتے، زرخیز زمین لازمی ہوتی ہے۔ زرخیز زمین ضروری نہ ہوتی، تو ’’صحرا‘‘ نام کا لفظ نہ ہوتا۔ ہم بھی اس زرخیز زمین کے پھول ہیں جس کے لیے اتنی جدوجہد کی گئی کہ قربانی نام کا لفظ تک چھوٹا لگنے لگا، لیکن ہم خود اس کو اپنے ہاتھوں سے بنجر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہاتھ ملنے سے بہتر ہے کہ ہم اس وطن پر فخر کریں اور اس سے محبت کریں۔ کیوں کہ اسی میں ہماری بقا ہے۔ یہ رونا میں نہ روتا اگر ہارس ٹریڈنگ کا لفظ بار بار اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نہ دیکھتا۔ ہم نے سب کچھ دیکھا اور سنا بس ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا سننا اور دیکھنا باقی تھا۔ سیاست دان تختِ اسلام آباد کے لیے اور کیا کیا گُل کھلائیں گے؟ ہماری تاریخ، آزادی کے بعد ستر سالوں پر محیط ہے۔ اس میں کیا کچھ نہیں دیکھا ہم نے؟ اقتدار کی رسہ کشی میں ہم نے کیا کچھ نہیں کھویا؟ نقصانات کا اِزالہ تو دور کی بات، ہم نے تو کبھی اس ملک کو اپنا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ یہ سو فیصد اللہ کی طرف سے ایک رحمت بھی ہے اور انعام بھی۔ ہم نے ہمیشہ اس ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے اور رہی سہی کسر سینٹ کے حالیہ الیکشن نے پوری کی۔ اقتدار کے لیے پیسوں کا اتنا استعمال ہوا کہ ضمیر کی چیخ و پکار بھی ماند پڑگئی۔ کیا سوچا ہے ان سیاستدانوں نے کہ اللہ دیکھ نہیں رہا؟
اللہ دیکھ رہا ہے، یہ جو تم سب کچھ فراموش کر بیٹھے ہو، ایک دن آئے گا جب مکافاتِ عمل شروع ہوگا۔ پھر اللہ کی لاٹھی بے آواز چلے گی اور وہ بھی ایسی کہ دیکھتی آنکھیں حیران رہ جائیں گی۔ سینٹ بھی ان کا ہوا اور قومی اسمبلی بھی ان کی ہوئی۔ ہمارے حصے کا وطن ہی ہمیں دے دیں، تاکہ ہم تو کہہ سکیں کہ ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور وہ بھی عشق کی حد تک۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ اس ملک سے محبت کرتے ہیں، ورنہ یہ پوری دنیا میں پاکستان کو رسوا نہ کرتے۔ بے شک اس ملک کے تخت پر بیٹھ جاؤ لیکن ہمارے حصے کا پاکستان تو ہمیں دے دو۔ کیوں کہ ہمیں حق ہے کہ اس ملک کے لیے کچھ کریں۔ ہمارا حق ہے کہ اس ملک کے لیے محبت کے نغمے گائیں اور اس ملک کا ہم پر حق ہے کہ یہ ہم سے ہماری جان تک مانگے۔ آپ شاید نہیں سمجھ سکتے کہ ملک سے محبت کیسے کی جاتی ہے؟ آپ کو شاید یہ پتا بھی نہیں کہ رات کی تنہائیوں میں انسانوں سے چھپ کر جو کھیل آپ بناتے ہیں اس کو اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ ان خفیہ کھیلوں پر نظر نہ رکھتا، تو شاید سکندر اعظم آج تک زندہ ہوتا۔ اللہ نہ دیکھتا اور مکافاتِ عمل نہ ہوتا، تو چنگیزیت آج تک ناچ رہی ہوتی۔ اللہ نہ دیکھ رہا ہوتا، تو ظالموں کا انجام بھیانک نہ ہوتا، لیکن یاد رکھو اللہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ تمہاری ہر چال سمجھتا ہے، لیکن تم ہو کہ ناسمجھ ہو۔
ہمارا سیاسی منظرنامہ خطرناک حد تک عجیب ہے۔ یہاں کے ’’سیاسی فتین‘‘ جو داؤ کھیل رہے ہیں، ان میں محبت کا فیکٹر بالکل نہیں ہوتا۔ نوجوان جو چھپکے سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں، پریشان بھی ہیں اور حیران بھی۔ وہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس ملک کے لیے کچھ کریں، لیکن سیاسی شطرنج کے یہ فتین کلاڑی کچھ اور ہی سوچ رہے ہیں کہ نہیں
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کہے کچھ بھی کرے، لیکن جو اس ملک کے لیے یہ کہتے ہیں اور کرتے ہیں، وہی ٹھیک بھی ہے اور حرفِ آخر بھی۔ دنیا نے دیکھا سب بکے اور اگر کوئی پیسوں سے نہیں بکا، تو وہ اپنے نظریے کا خون کرکے بکا۔ کیا اقتدار کی گدی اتنی اہم ہے؟ سنا ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں، وہ بھاگتے ہیں حکمرانی سے۔ ان کے سامنے واضح فرمان جو ہر وقت موجود ہوتا ہے: ’’آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی و نگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
ہارس ٹریڈنگ کا پس منظر جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس لفظ کے ساتھ سینٹ کے موجودہ الیکشن میں جس انداز سے روشناس کیا گیا، وہ مستقبل میں ہماری تاریخ کی سب سے بڑی غلطی گردانی جائے گی۔ یہ ضرور لکھا جائے گا کہ اس موڑ پر پاکستانی قوم پھسل گئی تھی اور ایک پوری نسل کی تباہی کا آغاز ہوا تھا۔
اس ملک کے سیاستدان دودھ کے دھلے تو نہیں، نہ کسی آسمانی پیغام میں یہ بات بتا دی گئی ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو امت اور پاکستان کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ انفرادی فائدوں کا کھیل کھیلنے والوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ جو اصول بناتے ہیں، ان اصولوں سے یہ فلک جھپکنے کی دیر میں خود بھاگ جاتے ہیں۔ ان کے لیے نظریہ بس اس لونڈی کی مانند ہے جس کو ہر اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے نفس کو آرام ملے۔ آپ کو یقین نہیں آ رہا، تو ماضیِ قریب میں گم ہوجائیں، آپ کو نظر آجائے گا کہ جو پیسوں سے نہیں بکے، وہ نظریے کو اس پار چھوڑ آئے جہاں خودی اور نظریہ ہی ان کا سرمایہ تھا۔
قارئین، آج ایک نوجوان نے جب پوچھا کہ یہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہے؟ تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ کیوں کہ مجھ میں یہ بتانے کی سکت نہ تھی کہ یہ کروڑوں اور اربوں میں نظریے کو بیچنے والوں کا بہترین مشغلہ ہے۔ میں یہ بتانے سے قاصر تھا کہ جب اپنی سوچ کو کوڑیوں کے دام بیچا جاتا ہے، تو اسی کو ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں۔ میں شاید بتا بھی دیتا لیکن اس کی آنکھوں میں جو بے قراری اور وطن کی محبت تھی، میں اس کی تاب نہ لاسکا اور خاموشی اختیار کی اور کسی حد تک خود کو لاعلم رکھا۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچے، جوان، بوڑھے سب غیر ضروری کاموں میں مصروف ہیں۔ یہ وطن اللہ کی طرف سے ایک رحمت ہی تو ہے، جو اتنی قربانیوں کے بعد ملا تھا کہ انسانی تاریخ میں کبھی بھی انسانوں نے ایک ملک کے لیے اتنی قربانیاں نہیں دیں۔ یہ واحد ملک ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر بنا تھا اور جس کے لیے ماؤں کے گود اُجاڑ دیے گئے تھے۔ یہ اتنا آسان کام نہ تھا لیکن اس کے پیچھے کارفرما نظریہ ہی وہ واحد قوت تھا، جس کی وجہ سے اللہ نے یہ وطن ہمیں دیا تھا۔ اس ملک کے سیاستدان دنیا کی واحد مخلوق ہیں جن کو پختہ یقیں ہوچلا ہے کہ وہ اللہ کی پکڑ سے محفوظ ہیں بلکہ بہت سے تو ایسے بھی ہوں گے جو شائد’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ پر بھی یقین نہ رکھتے ہو ں۔ اس وطن کا کوئی باپ شائد اپنے بچے کو یہ نہ بتا سکے کہ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کیا ہے اور نہ اس وطن کا کوئی استاد اور کوئی مینٹر یہ اپنے شاگرد کو بتا سکتا ہے کہ پروفیشنل انداز میں جب ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، تو اسی کو ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں۔ محبت لازمی ہے محبت ضروری ہے، ورنہ رشتہ قائم نہیں رہ سکتا اور جہاں محبت نہیں ہوتی، وہاں پیسہ ہی ایمان بن جاتا ہے اور میں نہ بتاؤں، تو بھی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہاں پیسہ ہی مقدس ہے۔ یہاں اقتدار ہی ضروری چیز ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے، یہ بات سمجھ لینی چاہیے اور جب یہ ایمان پکا ہوجاتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو پھر محبت کا پنا ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔ نظریے کا فقدان ہی اصل میں وطن سے محبت میں رکاوٹ ہے۔ وطن کے لیے محبت اور نظریہ دونوں لازمی ہوتے ہیں، یہ دو چیزیں جب ختم ہوجاتی ہیں، تو پھر وہاں پاکستانی سیاست جیسا ماحول بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔