صیاد حسین ترکئی

پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا کے عوام پر مختلف اوقات میں مختلف مصیبتیں آئیں ۔ جس کو اس خطے کے بہادر،غیوراور باشعور عوام نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس سے نمٹنے کیےلئے حکمت عملی اختیار کرکے ہمیشہ کامیابی حاصل کی،جس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور دہشتگردی کا بد ترین دور جس میں تقریباً ہر خاندان سے کسی نہ کسی صورت شہید کا جنازہ اٹھایا گیا ہے ۔اس کی بنیاد پر اگر ہم اس سر زمین کو خطہ شھداء کا نام دیں تو بے جا نہ ہوگا۔سیلاب کے بدترین دورکے ساتھ ساتھ زلزلے اوردیگر آفات کے ساتھ بدعنوان انتظامیہ اور کرپٹ حکمرانوں کا ذکر قابل ذکر ہے۔لیکن اب ایک نیا مسٔلہ اجا گرا ہے جو تبدیلی،ناکامی،بے روزگاری اور بدعنوانی کے نام سے جانا جاتاہے اور بالعموم ہر پاکستانی اور بالخصوص خیبرپختونخواہ کے غیور اور دانشور عوام اس کو مزید برداشت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔دہشتگردی،سیلاب،زلزلوں اور دیگر آفتوں نے بالعموم سارے ملک اور بالخصوص خیبرپختونخواہ کے عوام کو خطرناک اور بدترین پیکجز دئے ہیں جسمیں غربت اور بے روزگاری انتہا تک پہنچی عوام ان پیکجز کا خمیازہ بھگت رہے تھے کہ اچانک تبدیلی،انقلاب اور انصاف کے دعویدار تخت نشین ہوئے جن لوگوں کی تقاریر،الزامات اور زبان چلانے کی صفائی اتنی تھی کہ تقریباً ہر پاکستانی اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے جوانوں نے سب کچھ چھوڑ کر ان کے قافلے کا حصّہ بن کر ان کے لشکروں کا پیچھا کرنا شروع کردیا،خیبرپختونخواہ کے جوانوں کی بہت امیدیں ان سے وابستہ تھیں 2013ءکے جنرل انتخابات اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن اس حکومت نے تمام ناکامیوں کا بوجھ اس دور کے وفاقی حکومت (مسلم لیگ ن) پر ڈالا اور دوبارہ عوام کو وھوکہ دینے کے لئے اپنے کھلاڑیوں کو پیش کیا اور 2018ء کے جنرل انتخابات میں نہ صرف وفاق میں کابینہ بنائی بلکہ پاکستان کے وسائل سے مالامال صوبوں میں بھی حکومتی اراکین تخت نشین ہوگئے اور عوام کا یہ فیصلہ عوام ہی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا مترادف ثابت ہوا کیونکہ عوام بہت سی امیدوں کے ساتھ نہ صرف تبدیلی بلکہ عام عوام بالخصوص نو جوان طبقے کے لوگ روزگار،سہولیات اور دیگر آرائشوں کے خواب دیکھ رہے تھے جو خواب ہی رہ گئے۔ کیونکہ ان کو کیا پتہ تھا کہ گزشتہ 75 سال میں اتنی بڑی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل نہیں ہوئی تھی جو اب نازل ہوں گی جس کو عام الفاظ میں مہنگائی،بے روزگاری اور پٹرول بم کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ ناکامی کے ایسے بم ہیں کہ جگہ جگہ مثلاً تعلیمی اداروں،دفاتر،ہسپتالوں سے لیکر بھیٹکوں،حجروں،فٹپاتھ، راستوں، اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے لوگوں پر مہنگائی،غربت،فاقہ کشی اور چولہے ٹھنڈے ہونے کے تبصرے شروع ہیں۔اس وقت ہر باعزت،باشعور،اور حلال کمانے والا مہنگائی کا رونا رو رہا ہےاور آگے سے حکومتی اراکین سہولیات اور آرائشوں کے دروازے کے پیچھے آواز بلند کرتے ہیں کہ گھبرانا نہیں اور دیگر وزراء ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ان کے الفاظ سے تو بالکل یہ واضح نہیں ہو رہا کہ یہ بھی پاکستانی ہے۔میں توحیران ہوں کہ حکومت وقت کے کارناموں کو تبدیلی کا نام دوں یا ناکامی کا اگر تبدیلی کہیں تو واقعی غریب عوام کو تبدیلی ہی تبدیلی نظر آرہی ہے، جس میں اوسط درجے کے لوگ غریب اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے فاقہ کشی اور گداگری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔لوگوں کے چہروں سے خوشی کی چادر اڑ گئی اور خوشیوں کی بجائے غم،دکھ،مصیبت،فکر،پریشانی مہنگائی،اور کورونا کے بدترین دور کے ساتھ مقابلے کرنے کیلئے اکیلے میدان میں اترے اور حکومت کے اراکین نظارہ کشی میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں۔روزمرہ اشیائے خوردونوشی،دوائیاں،فیول پٹرول،سبزیاں اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں جس میں تعلیم و تربیت اور صحت کی اشیاء روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں اور مسلسل ایک بم کا استعمال کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے عوام کی نیند حرام ہو گئی ہے ۔ جس کو مہنگائی اور پٹرول بم کہتے ہیں جو ہر چیز کی قیمت میں بالواسطہ اضافے کا سبب بن جاتاہے۔عام شہری موجودہ مہنگائی کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں جس سے ذہنی طور مفلوج ہو نے،خودکشیوں کے تناسب اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں بڑھتا ہوا اضافہ خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔اور اگر کوئی جرنلسٹ یا حزب اختلاف میں کوئی حکومتی اراکین سے عوام کے بدترین حالات کے بارے پوچھے تو حکومت وقت سارا بوجھ گزشتہ حکومتوں پر ڈالتے ہیں۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے عجیب ٹوٹکہ اختیار کیا کہ گزشتہ روز ایک نان والے بھائی نے کہا کہ ہمیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ روٹی کا وزن کم کریں لیکن قیمت یا نرخوں میں اضافہ نہ کریں جس میں بھی تبدیلی واضح نظر آرہی ہے۔اسکے علاوہ روزمرہ استعمال ہونے والے ہر چیز کے نرخ سے لیکر معیار اور مقدار تک تبدیلی نظر آرہی ہے جو کہ اصل میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے باشعور عوام نے واضح کردیا کہ ہم موجودہ صورتحال سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ اگر چہ حکومتی اراکین ،صوبائی اسمبلی کے ممبران سے لیکر قومی اسمبلی کے ممبرز سے ہوتے ہوئے سینیٹرز نے بھی کھل عام حکومت وقت کے حق میں نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ عوام کو سہولیات اور دھوکہ کرنے کے لیئے مختلف حربے بھی استعمال کئے لیکن عوام نے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ ہم مہنگائی سے تنگ آئے ہیں اور مزید تبدیلی نہیں چاہتے۔
انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں بھی کافی تبدیلیاں ہرشہری کو سوچ کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جس کے بارے میں برسر اقتدار آنے سے قبل عمران خان اپنی ہر تقریر میں حوالے دیا کرتے تھے، کے آصف زرداری کی حکومت میں کرپشن پرسپشن انڈیکس کے مطابق جب پاکستان بلند ترین سطح پر گیا تھا تو اس کا نمبر139 ہوگیا تھا، حالانکہ زرداری کے دورِ اقتدار کے باقی برسوں میں یہ 126اور 127رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان کا نمبر 116اور 117رہا۔ لیکن کرپشن کے خلاف میدان میں نکلنے والے مردِمجاہد عمران خان کی حکومت میں پہلے سال پاکستان کرپشن میں ترقی کرکے 117سے 120پر چلا گیا، دوسرے میں مزید ترقی کرکے 124پر چلا گیا اور امسال 140پر چلا گیا۔یوں کرپشن کے معاملے میں عمران خان کی حکومت نے زرداری حکومت کو بھی مات دے دی اور اس سے بھی ایک درجے اوپر یعنی 139سے 140پر چلی گئی لیکن ’’کمال‘‘ملاحظہ کریں کہ وہ اب بھی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔دوسری طرف اگر تبدیلی کے دعویداروں کے حمایتیوں اور کارکنوں کو دیکھا جائے تو اس میں نوجوان طبقے کے لوگوں نے موجودہ حکومت لانے کیلئے دن رات ایک کر کے سخت مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن جواب میں انکو صرف بے روزگاری،مہنگائی اور پریشانی کے علاؤہ اور کچھ نہیں ملا،جو ملک و قوم کیلئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔جب سے یہ حکومت تخت نشین ہوئی ہے تب سے پارلیمنٹ کے فلور سے لیکر نچھلی سطع تک سیاستدانوں کی بے اتفاقی،بغض اور حسد عدم مساوات کا عجیب نظارہ پیش کرتا ہے۔اگر حکومت وقت نے موجودہ مہنگائی،بے روزگاری اور سیاسی بے اتفاقی و بے چینی کو قابو کرنے کیلئے خاص انتظامات نہ کئے تو موجودہ حالات سے اگر عوام کے صبر کا پیمانہ لرز اٹھا تو انکو قابوں کرنے میں حکومت ناکام رہ کر خطرناک فیصلے کرینگے جو ایک جمہوری ملک میں اس کی اجازت اور اسکی طرف راہ ہموار کرنا ناقابل برداشت ہوتا ہے۔اور عوام بھی اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایسے فیصلے کرینگے جو ملک کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کیلئے کبھی سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔اس لئے حکومت وقت کو حوش کے ناخن لینا چاہئیے، اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیئے اور ملک کے موجودہ صورتحال پر منصوبہ بندی کرنی چاہیئے ورنہ عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال کا مسٔلہ ذیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔