ڈاکٹر محمد علی دینا خیل

حال ہی میں ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب نے ناروے کے مشہور انترا پالوجسٹ ’’فریڈرک بارتھ‘‘ کی چند کتب کے علاوہ ’’رواج نامہ سوات‘‘ کو دوبارہ شایع کیا ہے۔ سوات کے بعض لوگوں کو یہ کتابیں تحفتاً دی بھی گئی ہیں۔ سوات کے لوگ خوش ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ کتابیں دوبارہ شایع کردیں اور حقیقت میں یہ خوشی کی بات ہے بھی۔
مَیں بھی ایسے ’’علم دوست‘‘ ڈپٹی کمشنر صاحب کی توجہ ریاستِ سوات کے ریکارڈ کو محفوظ کرانے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہو…… جو آزاد ریاستیں 1947ء کے بعد پاکستان میں ضم ہوئیں، ان میں سے اکثر کا بیشتر ریکارڈ محفوظ ہے…… لیکن سوات کی ریاست کے ریکارڈ کا کچھ علم نہیں۔
برسبیلِ تذکرہ…… ایک دفعہ سوات کے ایک نام ور محقق نے مجھے بتایا کہ چند سال پہلے وہ ڈسٹرکٹ ریکارڈ روم میں اپنی تحقیق کر رہے تھے، تو ریکارڈ سیکشن کے ایک اہلکار نے انہیں کہا کہ ’’یہ پرانا ریکارڈ ہے۔ ہمارے کام کس کام کا! اس لیے اسے گھر لے جائیں۔‘‘ تو اس نے بتایا کہ میری طرف سے جواب تھا: ’’بھئی، یہ سرکاری ریکارڈ ہے۔ یہ گھر لے جانے والی چیز بالکل نہیں۔‘‘
موصوف کے بقول جب دو ہفتے بعد دوبارہ وہاں گیا، تو پتا چلا کہ ریکارڈ انہوں نے ضایع کیا تھا۔
2010ء تا 2016ء راقم الحروف نے بھی سوات میں ریسرچ کی غرض سے کمشنر آفس، ڈپٹی کمشنر آفس، ڈسٹرکٹ ریکارڈ روم، مال خانہ او ر ریونیو ریکارڈ کے دفاتر کے چکر لگائے…… لیکن ڈسٹرکٹ ریکارڈ روم میں ریاست کے قاضیوں کے چند ایک رجسٹروں کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملی۔ اس طرح چند رجسٹر خوازہ خیلہ تحصیل کے ریکار ڈ میں بھی ہیں۔
اب یہ تو بڑے دکھ کی بات ہے کہ50 سال سے زیادہ عرصے تک ایک ریاست موجود رہی اور اس کا ریکارڈ غایب ہے! یہ کس کی ذمہ داری تھی کہ ریکارڈ محفوظ نہیں کیا گیا…… اور کیوں محفوظ نہیں کیا گیا؟
ان سطور کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سوات کی خدمت میں یہ درخواست کی جاتی ہے کہ سوات کی ریاست کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے پر کام شروع کریں۔ اس کو محفوظ کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ریکارڈ روم میں ایک مخصوص جگہ ہونی چاہیے۔
نیز سوات کی جن مختلف تحصیلوں میں یہ ریکارڈ موجود ہے، ان کی کم از کم نقول تیار کرکے ایک جگہ محفوظ رکھا جانا چاہیے۔
پشاور کی نمک منڈی میں ’’ہوم ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے ماتحت ایک ’’آرکایوز‘‘ میں بھی سوات کی ریاست کی کچھ دستاویزات موجود ہیں۔ ان کی بھی کم سے کم نقول تو سوات میں ہونی چاہئیں۔
اس طرح بعض لوگوں کے ذاتی کلیکشن میں ریاستِ سوات کی دستاویزات موجود ہیں…… ان سے بھی اس بارے میں اپیل کی جانی چاہیے کہ ان دستاویزات کی نقول سرکاری ریکارڈ روم کو مہیا کریں۔ ایک دفعہ یہ ساری دستاویزات جمع ہوجائیں، تو پھر ان کو ڈیجیٹل طریقے سے بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے…… تاکہ مستقبل میں بھی یہ محققین کا کام آسکے۔
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر سوات کو سوات کے تاریخ دانوں، صحافیوں، سول سوسایٹی اور سوات کے شاہی خاندان کے افراد سے مشاورت کرنی چاہیے، تاکہ وہ اس کارِ خیر میں ڈپٹی کمشنر کا ساتھ دیں۔