ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری

اگر آپ کسی نہایت خوب صورت جگہ پہنچ جائیں تو یہ آپ کی قسمت ہے لیکن اگر آپ چند ہفتوں کے وقفے سے اُسی جگہ دوبارہ اور پھر سہ بارہ جا پہنچیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا بلکہ اللہ رب العزت کا خاص انعام ہوگا اور الحمدلِلٰہ مجھ پر یہ کرم ہو چکا ہے۔

2017 ہندوکش کے سفر کی نوید لے کر آیا اور ایک نہیں، تین تین بار۔ اُس برس مجھے جون اور ستمبر میں ضلع ”دیر بالا ”کے مختلف علاقے دیکھنے کا حسین اتفاق ہوا۔ ہر سفر اپنی جگہ لاجواب۔ تینوں بار مختلف ساتھی، مختلف جگہیں اور مختلف مقاصد۔ لیکن جب بھی اس جگہ جانا ہوا اُنہی بلند و بالا پہاڑوں، شفاف دریاؤں اور انہی راستوں نے استقبال کیا۔

سوائے منزل کے کچھ بھی تو نہ بدلا تھا، نہ لوگ، نہ ناگن کی طرح بل کھاتے راستے، نہ ہڈیوں میں گھس جانے والی ٹھنڈی ہوا، نہ شور مچاتے چشمے اور نہ پورے چاند کی چاندنی میں نہائے ہیبت ناک پہاڑ۔

کبھی کبھی میں یہ سوچنے لگتا تھا کہ شاید میرا خمیر یہیں کی مٹی سے اُٹھایا گیا ہے کہ ہر بار قسمت ادھر ہی لے آتی ہے۔ چلیں اب پاکستان کے اس خوب صورت علاقے کی سیر کراتا ہوں۔

سوات، کالام، چترال، گلگت وغیرہ کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن دیر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ میرے نزدیک اس علاقے کی طرف (سوائے کمراٹ کے) بہت کم سیاحوں کا آنا اور پبلسٹی کا نہ ہونا ہے۔

خیبر پختونخوا کا چھٹا بڑا ضلع، ضلع دیر بالا، پاکستان کے شمال مغرب میں چترال اور پشاور کے بیچ ایک چھوٹی سی شاہی ریاست تھی۔ ”دیر”سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت کی جگہ یا خانقاہ ہے۔ 1969 میں یہ ریاست پاکستان میں ضم کردی گئی اور پھر مالاکنڈ ڈویژن بننے کے بعد 1970 میں اس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1996 میں اس ضلع کو مزید دو حصوں ”لوئر دیر”(دیر زیریں/ دیر پائین) اور ”اپردیر”میں تقسیم کردیا گیا۔

ضلع دیر بالا کے مشرق میں ضلع سوات، مغرب میں افغانستان کا صوبہ کُنار، شمال میں چترال اور جنوب میں ضلع لوئر دیر ہے۔ ”شنگاڑا پاس”دیر کو افغانستان جب کہ ”لواری پاس”اِسے چترال سے ملاتا ہے۔

اس علاقے تک پہنچنا بہت آسان نہیں تو بہت مشکل بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد سے موٹروے کے ذریعے رشکئی اور مردان پھر آگے تخت بھائی، درگئی، سخاکوٹ، مالاکنڈ، بٹ خیلہ، چکدرہ، تالاش، تیمرگرہ اور رباط سے ہوکر آپ ضلع دیر بالا پہنچ جائیں گے۔

دیر بالا کی خاصیت یہاں موجود ہندوکش اور کوہِ ہندو راج کے برف پوش پہاڑ، اخروٹ اور ناشپاتیوں کے باغات، خوب صورت چراگاہیں، صاف شفاف جھرنے، شور مچاتا دریائے پنجکوڑہ، بارش کے بعد نمودار ہونے والی قوسِ قزح اور دل کو مسحور کر دینے والے نظارے ہیں۔

اس علاقے کا سب سے بڑا اور مشہور دریا ”پنجکوڑہ”ہے جو یہاں کے لوگوں کے لیے زندگی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ دیر- کوہستان میں ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکلنے والا یہ دریا جہاں پورے ضلع کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں یہ گندھارا تہذیب کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔