فضل محمود روخان
14 اگست 2024ء کے صدارتی ایوارڈز کا اعلان خوشیاں بانٹنے کی بہ جائے فنونِ لطیفہ سے منسلک عالم حضرات کی اُمیدوں پر پانی پھیر گیا اور اُن کے مستقبل کے منصوبے چکنا چور کرگیا۔ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ وزیرِاعظم پاکستان کی میز پر پڑی ملک بھر کے علما کی خدمات کا یوں مذاق اُڑایا جائے گا۔
قارئین! جو تخلیق کار اپنی کارکردگی اور ملک و ملت کے لیے مسلسل خدمات سر انجام دینے کے لیے کام کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنی زندگی کے پچاس، ساٹھ سالوں کی تخلیق کا انبار اپنے ضلعی آفیسر ڈپٹی کمشنر کے سامنے سائٹیشن رپورٹ کی صورت میں، اُردو اور انگریزی میں، جو ڈھیر سارے صفحات پر مشتمل ہوتی ہے، رکھ دیتے ہیں، تو ضلعی آفیسر اور متعلقہ افسر صاحبان اور دیگر افسران صاحبان اپنی تسلی کرا دیتے ہیں۔ یوں تقریباً 2 ماہ میں اُن کا کیس تیار ہوکر ڈپٹی کمشنر کے دستخط کے بعد کمشنر دفتر بھیجا جاتا ہے۔ وہاں متعلقہ ڈاکومنٹس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنی تسلی کرنے کے بعد ’’کورنگ لیٹر‘‘ کے ساتھ مزید کارروائی کے لیے صوبائی حکومت کو بھیج دیتے ہیں۔ یہ عمل تقریباً 800 یا اس سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس مواد (سافٹ اور ہارڈ) کے 45 الگ الگ سیٹ بنائے جاتے ہیں۔ پھر صوبائی حکومت کا متعلقہ ادارہ اس مواد کا جائزہ لیتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام تر ریکارڈ مع 2 منٹ 30 سیکنڈ پر مشتمل آڈیو ریکارڈ کے یو ایس بی (فلیش ڈرائیو) میں اپنی ذات سے متعلق تمام تر معلومات سائل خود فراہم کرتا ہے۔
جب یہ سب کچھ متعلقہ ادارے کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُترتا، تو اُسے مقابلے سے الگ کردیا جاتا ہے، اور جو مطلوبہ معیار کے مطابق ہو، تو پورے صوبے سے آئی ہوئی سائٹیشن رپورٹیں جو فنونِ لطیفہ سے منسلک مختلف علما کی ہوتی ہیں، ایک مقررہ تاریخ کو 45 ججوں کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔ پھر جو حضرات مقابلے میں زیادہ نمبر حاصل کرلیتے ہیں، تو اُن کی رپورٹ پر اپنے اپنے اداروں کے سیکرٹری صاحبان دستخط کرکے صوبے کے چیف سیکرٹری کی منظوی حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ وہاں چیف سیکرٹری اور دیگر سیکرٹری صاحبان کی موجودگی میں چیف سیکرٹری اپنی تسلی کے بعد رپورٹوں کو سائن کرکے وزیرِ اعلا کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے منظور ہوکر یہ صدارتی ایوارڈز کی منظوری کے لیے اسلام آباد بھیج دی جاتی ہیں۔ وہاں قومی سطح پر ایوارڈز کمیٹی کا اجلاس بلایا جاتا ہے۔ پھر وہاں جج صاحبان ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہاں سے حتمی منظوری حاصل کرنے کے بعد اس کی سمری وزیرِ اعظم پاکستان دستخط کرکے ایوانِ صدر بھج دیتے ہیں۔
عموماً یہ سول صدارتی ایوارڈز ملک بھر اور باہر ممالک کے چند اشخاص کے ساتھ تقریباً 350 ہوتے ہیں، لیکن اس سال اس کی تعداد 105 تک محدود رکھی گئی، جس میں فنونِ لطیفہ سے منسلک ایوارڈز صرفِ نظر کرکے 14 اگست 2024ء کو ایک طرح سے پاکستان میں فنونِ لطیفہ سے منسلک حضرات کی حق تلفی کی گئی ہے۔
قارئین! فنونِ لطیفہ سے منسلک حضرات، لوگوں میں شعور و آگہی کو بیدار کرتے ہیں اور محبتیں بانٹتے ہیں۔ ایسے لوگ بڑے حساس ہوتے ہیں۔ ان کی دل جوئی کرنا عوامی و جمہوری حکومت کا فرض بنتا ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب اور وفاقی وزیر جناب امیر مقام خان سے استدعا ہے کہ فنونِ لطیفہ سے منسلک پاکستان بھرکے وہ ادیب اور دانش ور جن کو ان کے صوبوں نے صدارتی ایوارڈ کا حق دار ’’ڈی کلیئر‘‘ کرکے ان کی سفارشات اسلام آباد بھیجی ہیں، اور اسلام آباد نے بھی ان کو اپنے اپنے شعبوں میں صدارتی ایوارڈز کے لیے حق دار ٹھہرایا ہے، اُن کے ناموں کا بھی اعلان کیا جائے اور اُنھیں بھی صدارتی ایوارڈ دیا جائے۔ کیوں کہ یہ حضرات ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے سخت مرحلوں سے ہوکر اس مقام تک پہنچے ہیں۔ اس طرح سے اب ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔
استدعا ہے کہ سول صدارتی ایوارڈ کی تعداد کو گذشتہ سالوں کی تعداد کے برابر رکھا جائے، تو عین نوازش ہوگی ۔