نباتاتی سائنس اور حیاتیاتی تنوع کے شعبے کے محققین اور ماہرین نے کہاہے کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہوچکی ہیں کیونکہ آبادی میں اضافے کی شرح قدرتی وسائل کے استحصال کی بڑی وجہ ہے جس سے ملک کو ممکنہ منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر حسن شیر ( سارک گولڈمیڈلسٹ) ،زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر جہان بخت اور دیگر ماہرین نے ودودیہ ہال، سیدو شریف، سوات میں منعقدہ
‘‘بائیو سائنسز میں پیشرفت: تحقیق اور پائیدار ترقی کے اہداف کے درمیان فرق کوپُرکرنا’’کے موضوع پر منعقدہ تین روزہ پانچویں بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا داؤد خان مہمان خصؤصی تھے۔اس کانفرنس کا انعقاد سنٹر فار پلانٹس سائنسز اینڈ بائیو ڈائیورسٹی، یونیورسٹی آف سوات نے ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان، بائیولوجیکل سوسائٹی آف پاکستان اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے کیا ہے۔
افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا داؤد خان نے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسان قدرتی سرمائے کے غلط استعمال میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پرحیاتیاتی تنوع سے متعلق بڑے خطرات درپیش ہیں۔انسان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حیاتیاتی تنوع صحت بخش خوراک اور ادویات کا بہترین ذریعہ ہے، اس طرح یہ ہماری صحت اور زندگی کو بھی محفوظ بناتا ہے۔
انہوں نے شرکاء اور محققین پر زور دیا کہ وہ اپنی علمی بصیرت کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے میں اپناکردار اداکریں تاکہ لوگوں میں قدرتی وسائل کے تحفظ سے متعلق شعور اجاگر ہوسکے ،۔
سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن شیر نے کہا کہ پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل کے استحصال ہورہا ہے۔ مقامی آب و ہوا کا ذکر کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ قدرتی وسائل کا بے تحاشہ استحصال اور فطرت کے تحفظ میں عدم دلچسپی خطے میں ’غیر یقینی موسم‘ کا باعث بن رہی ہے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ سوات یونیورسٹی نے اس اہم تقریب کی میزبانی کی پہل کی ہے، جس کا مقصد پودوں کے سائنس اور حیاتیاتی تنوع کے شعبے کے محققین اور ماہرین کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے، جس سے وہ اپنے ماہرانہ خیالات اور تحقیقی نتائج سے لوگوں کو آگاہ کر سکیں، انہوں نے کہا کہ کانفرنس ، جہاں پاکستان کی 32 مختلف یونیورسٹیوں کے محققین اور بیرون ملک نامور محققین شرکت کر رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
اس موقع پر زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہان بخت نے کہا کہ آبادی میں 2.5 فیصد اضافہ قدرتی وسائل پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے، جس سے پاکستان دنیا کا 10واں ملک بن گیا ہے کہ جسے موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثرہونے کا خدشہ ہے. انہوں نے کہا کہ خطے میں کیڑے مار ادویات کا غیر ضروری استعمال انسانوں کے ساتھ ساتھ فطرت کے دیگر باشندوں کو بھی مختلف بیماریوں کا باعث بن رہا ہے ، اگر قدرتی وسائل کا استحصال جاری رہا تو خدشہ ہے کہ پاکستان کو سال 2025میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے۔
اس سے قبل پاکستان، جنوبی کوریا اور امریکہ کے نامور محققین نے کانفرنس کےبنیادی موضوع پر اپنے تحقیقی آرٹیکلزپیش کئے
۔ بعد ازاں آنے والے مہمانوں ، غیر ملکی مندوبین اور کانفرنس کے منتظمین میں شیلڈز تقسیم کی گئیں۔
آبادی میں اضافے کی شرح قدرتی وسائل کے استحصال کی بڑی وجہ ہے،محققین
