’’سوات میں لاقانونیت کی انتہا‘‘ کے عنوان سے میرا کالم 23 جنوری 2022ء کو روزنامہ آزادی، باخبر سوات ڈاٹ کام اور لفظونہ ڈاٹ کام پر شایع ہوا تھا۔ مذکورہ کالم میں، مَیں نے سوات میں اُن ٹیکسی گاڑیوں بارے لکھا تھا جس پر کچھ افراد نے ایمبولنس کی طرح ریوالونگ لائٹس اور ایمرجنسی سائرن لگائے ہوتے ہیں۔ وہ جب کسی مریض کو ہسپتال سے چھٹی کے بعد بھاری پیسوں کے عوض گھر لے کر جاتے ہیں، تو لائٹس آن کرتے ہیں اور تیز سائرن بجاتے ہیں…… جس کی وجہ لوگوں کے ذہنی امراض میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ کالم کسی طریقے سے ہماری ضلعی انتظامیہ کو پہنچا…… جس پر ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے ایکشن لیتے ہوئے چھٹی نمبر 3376-87/SIV-PA مورخہ 25 جنوری 2021ء کو ایک اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں متعلقہ تمام محکموں کے سربراہان، ٹیکسی ایمبولینس کے یونین عہدیداروں سمیت مجھ ناچیز کو بھی مدعو کیا گیا۔ اجلاس شروع ہوا، تو سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر نے محکمۂ صحت کے حکام سے پوچھا کہ ایمبولینس کسے کہتے ہیں؟ تاہم وہ درست جواب نہ دے سکے۔ اس کے بعد مَیں نے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایمبولینس اس گاڑی کو کہتے ہیں جو حادثات یا ایمرجنسی میں مریضوں کو مفت ہسپتال منتقل کرتی ہے یا پشاور اور دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں مفت منتقل کرتی ہے۔ مثلاً ہسپتال کے ایمبولینس، ریسکیو 1122، ایدھی فاؤنڈیشن وغیرہ۔
اجلاس کو مَیں نے یہ بھی بتایا کہ جو نجی ایمبولینس ہیں، یہ دراصل ٹیکسی گاڑیاں ہیں اور یہ ہسپتال سے چھٹی ہونے والے یا ہسپتال میں انتقال کرنے والے مریضوں کو گھروں تک بھاری رقم لے کر پہنچاتی ہیں۔ نہ تو چھٹی ہونے والے مریض کو گھر جلدی جانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ مردے کو ہی کوئی جلدی ہوتی ہے، تو اس لئے ان ٹیکسی گاڑیوں پر ایمبولینس کی طرح لائٹ اور سائرن نہیں لگانا چاہیے۔ کیوں کہ سوات کے لوگ دہشت گردی کے دوران میں ایمبولینس کی آوازوں سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں…… اور اب جب یہ ٹیکسی ایمبولینس والے کھانا کھانے بازار کا رُخ کرتے ہیں یا گھر جاتے ہیں، تو تب بھی لائٹ اور سائرن لگاکے جاتے ہیں۔
اس موقع پر اجلاس کے شرکا نے میری بات سے اتفاق کیا اور ڈپٹی کمشنر سوات نے آئے ہوئے گاڑی مالکان کو لائٹ لگانے اور سائرن بجانے سے منع کیا۔ نیز ان کو حکم دیا کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر اپنے آپ کو اے سی سوات کے ساتھ رجسٹر کریں۔
اجلاس میں قایم مقام ایس پی ٹریفک کو بھی حکم دیا گیا کہ اگر کوئی ٹیکسی ایمبولینس والا لائٹ لگائے یا سائرن بجائے، تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
قارئین! اجلاس ختم ہونے کے بعد کئی ہفتے تک ٹیکسی ایمبولینس والوں نے لائٹ لگانا اور سائرن بجانا بند رکھا، لیکن کچھ ہفتے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایمبولینس نما لائٹ لگانا اور ایمبولینس نما سائرن بجا نا پھر شروع کردیا اور عوام کو اذیت دینا پھر شروع کردیا، تو مَیں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو دوبارہ فون کیا…… اور اس عمل سے آگاہ کیا۔ یوں انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی (مینگورہ) کو کارروائی کا حکم دیا۔ اے سی صاحب نے بھی سنٹرل ہسپتال کے سامنے مذکورہ گاڑیاں جہاں کھڑی ہوتی ہیں، کا دورہ کیا جس کی تصویر سوشل میڈیا پر دی گئی…… مگر کوئی کارروائی انتظامیہ اور نہ ٹریفک پولیس کی جانب سے عمل میں لائی گئی۔
ٹیکسی ایمبولینس گاڑیوں کے خلاف قانونی کارروائی بہت ہی آسان تھی۔ انتظامیہ اپنے کسی آفیسر یا پولیس والوں کو بھیج دیتی اور وہ تمام گاڑیوں سے لائٹ اور سائرن اتار دیتے، تو مسئلہ حل ہو جاتا…… لیکن انتظامیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا ’’آئینی بحران‘‘ثابت ہوا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کے ووٹ پر جو آئینی بحران پیدا ہوا تھا، جس پر آدھی رات کو عدالتیں کھلیں، قیدیوں والی گاریاں پہنچ گئیں، تب کہیں جا کر عدمِ اعتماد پر ووٹنگ ہوئی اور وہ آئینی بحران ٹل گیا۔
اس طرح وزیرِ اعلا پنجاب حمزہ شہباز سے منتخب ہونے کے بعد حلف نہ لینے کا آئینی بحران پیدا ہوا جو بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے حل کردیا، اور حکم دیا کہ قومی اسمبلی کا سپیکر وزیرِ اعلا پنجاب سے حلف لے، جس کے بعد اُن سے حلف لیا گیا۔ وہ آئینی بحران بھی حل ہوگیا…… لیکن سوات میں ٹیکسی ایمبولینس کا مسئلہ حل کرنا گویا آئینی بحران سے بھی بڑا بحران ہے۔
اس حوالے سے جب سے انتظامیہ نے خاموشی اختیار کی ہے، اس وقت سے ٹیکسی ایمبولینس والوں نے سائرن بجانے میں اور اضافہ کردیا ہے۔ ان گاڑیوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سوات کے لوگ ان کی سماعت خراش آوازوں کی وجہ سے مزید اذیت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ عوام مزید ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اس لیے مَیں نے کالم کا عنوان’’سوات میں لاقانونیت کی انتہا تاحال برقرار‘‘ رکھا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو بہت جلد مینگورہ شہر ملک کے سب سے بڑے ’’پاگل خانے‘‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔
سوات میں لاقانونیت کی انتہا تاحال برقرار :::فیاض ظفر:::
