پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد ہونے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔واضح رہے گزشتہ روز پاکستان کی قومی اسمبلی نے فنانس بل 23- 2022 کی کثرت رائے سے منظوری دی تھی۔خیال رہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 27 مئی کے بعد 2 جون کو دوبارہ 30 روپے کا اضافہ کردیا تھااور اب مزید اضافہ کر دیا گیا۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنا ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی رفتار کو تیز کرنے کے مترادف ہے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ صرف ان دو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ لے کر نہیں آتا بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زرعی مشینری غرض ہر چیز جس میں ایندھن کا براہ راست استعمال ہوتا ہے یا بالواسطہ ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے صرف مہنگی نہیں ہوتی بلکہ جس شرح سے اس شعبے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ اس سے دگنا وصولی ہو جائے ۔ معیشت کی بہتری کے لئے نہ تو رخصت شدگان کے پاس کوئی مناسب فارمولہ تھا اور نہ ہی ان کی جگہ لینے والے اس حوالے سے کسی بہتری اور عوام کو ریلیف دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں الٹا ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت اور کاروبار حیات متاثر ہوئی اور عوام کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو مایوسی ہوئی۔ایسا ہونا اس لئے بھی فطری امر ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد جن نمائندوں سے خیر کی توقع تھی انہوں نے بلاچوں وچرا اسمبلی میں پٹرولیم لیوی عائد کرنے کی حمایت کر ڈالی مشکل امر یہ ہے کہ ابھی پٹرولیم لیوی کا مکمل نفاذ نہیں ہوا ہے بلکہ اسے بتدریج بڑھا کر پچاس روپے تک لے جایا جائے گا ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر عالمی حالات معاشی صورتحال کے باعث جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین قبل ازیں ہی پٹرول کی قیمت تین سو روپے فی لیٹر سے بھی زائد ہونے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف پیشگی اقدامات کا خواہاں ہے جس کے تحت 855 ارب روپے پٹرولیم لیوی اور گیارہ فیصد سیلز ٹیکس کاپٹرولیم مصنوعات پر لاگو کرنا ہے بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ آئی ایم ایف ہی کی شرط ہے جن شرائط پر حکومت خواہ وہ پہلے والی ہو یا موجودہ آئی ایم ایف سے معاملت کی ہے اس کے اثرات سے ملک اور عام آدمی جاں بلب ہیں حکمرانوں کا ہر سخت فیصلہ عوام کے حوالے سے ہوتا ہے ایسے اقدامات پر تو سرے سے توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے جس میں کفایت ہوسکے ۔ حکومت کو سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال اورایندھن کا قومی خزانے پر بوجھ کا سامنا ہے مگر سرکاری گاڑیوں کی جگہ حکومت ملازمین کے لئے سٹاف بس سروس شروع کرکے مشترکہ ٹرانسپورٹ دے کر ایک اچھی ابتداء پر تیار نہیں جبکہ حکمرانوں کے پروٹوکول میں بھی کمی نہیں لائی جا تی بجلی و پٹرول کے استعمال میں کفایت کا سنجیدہ فیصلہ کیا جائے تو ماہرین اس کے کئی موزوں حل تلاش کر سکتے ہیں ایک عزم صمیم کے ساتھ اس کی ابتداء تو کی جائے حکومت بعض اقدامات کے ذریعے بہتری کی سنجیدہ سعی کرسکتی ہے لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی افزاء پیشرفت نظر نہیں آئی بلکہ الٹا فاقہ مستی کے مظاہر ہی سامے آتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف مکتبہ ہائے فکر کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں اس میں سے ایک ایندھن کی بچت کے لئے ہفتے میں ایک دن گھر سے کام کرنے کی تجویز ہے جن اعلیٰ شخصیات جس میں دفاع ‘ عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت سبھی شامل ہیں ان کو مفت پیٹرول کی سہولت ختم کی جائے ‘ سرکاری ٹرانسپورٹ کا استعمال محدود کیا جائے اور اس کے غیر قانونی استعمال کا پوری طرح خاتمہ کیا جائے ۔دس ایکڑ سے زرعی اراضی پر ایک مرتبہ کا بھاری ٹیکس عائد کیا جائے اور 18سو سی سی سے بڑی گاڑیوں پر بھی مزید ٹیکس لگایا جائے پٹرول کے استعمال میں کفایت شعاری کے مزید راستے تلاش کئے جائیں خاص طور پرحکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے غیر ترقیاتی اخراجات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جتنا ممکن ہو سکے انقلابی اقدامات کے ذریعے عوام کا بوجھ کم کیا جائے ۔افسوسناک امر تو یہ ہے کہ عوام جس ”شہباز سپیڈ” سے اپنے مسائل کے حل اور مشکلات میں کمی کی توقع کر رہے تھے اس ضمن میں تو کچھ نظر نہیں آتا الٹا اس سپیڈ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو سوچنا چاہئے کہ آخر ایسا کب تک ہوگا چار پانچ ماہ بعد وہ جس بہتری کا عندیہ دے رہے ہیں وہ کیسے ممکن ہوگا اس حوالے سے حکومت کی منصوبہ بندی کی کامیابی کی کیا ضمات ہے ان حالات میں کم از کم عوام کو یہ دلاسہ ہی دیا جائے تو بھی امید کی کرن جائے گی ورنہ مایوسیاں ہی مایوسیاں ہیں۔
تیسرا پیٹرول بم
