روح الامین نایابؔ
شریف برادران مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی پانچ سالہ مدت میں گیارہ ہزار کلو واٹ بجلی پیدا کرکے نیشنل گرِڈ میں شامل کی ہے اور ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے عمران خان صاحب صوبہ خیبر پختونخوا میں تین سو عدد بجلی گھر بنانے کے دعوے دار ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں اس وقت یہ کالم موم بتی کی روشنی میں ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں۔ 9 جولائی کی رات 11 بجے سے بجلی غائب ہے اور اب رات کا ایک بجنے والا ہے۔ بجلی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ’’یو پی ایس‘‘ نے جواب دے دیا ہے اور ’’جنریٹر‘‘ میں تیل ختم ہے۔
آخر یہ جھوٹ کیوں؟ رمضان میں وعدے کیے گئے کہ سحری و افطاری میں بجلی نہیں جائے گی۔ عجیب مذاق یہ تھا کہ افطاری تو لوڈشیڈنگ میں تھی ہی جب کہ سحری بھی اندھیروں میں رہی۔
قارئین، سنا ہے کہ شہباز شریف صاحب این اے 3 سوات سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ اگر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بہ قول شریف برادران کے ہوچکا ہے، تو وہ پنجاب یا لاہور میں ہوچکا ہوگا۔ میں تو اب بھی اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہوں۔ چوبیس گھنٹے میں کم از کم بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ 9 بجے کا خبرنامہ شروع ہوتے ہی بجلی چلی جاتی ہے۔ 10 بجے آتی ہے، پھر گیارہ بجے چلی جاتی ہے، پھر بارہ بجے آتی ہے۔ یہ آنکھ مچولی تمام رات جاری رہتی ہے۔ گرمی عذاب، بے خوابی کے کٹھن مرحلوں سے گزر کر صبح طلوع ہوتی ہے۔ ہم سواتی ہمیشہ ریاست اور حکومتِ وقت کے وفادار رہے ہیں۔ بجلی کے بِل، فون کے بِل، گیس کے بِل، مجال ہے کہ ایک دن بھی تاخیر ہو۔ کوئی چوری چکاری نہیں۔ پھر بھی ہم پر ہی آفت نازل ہوتی ہے۔ تمام چور اور ڈاکو تو پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے، چوہدری اور جاگیردار ہیں۔ جن کے گھر، محل اور دفتر چوبیس گھنٹے بجلی کے قمقموں سے روشن ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک منٹ کے لیے بجلی غائب نہیں ہوتی۔
آخر شریف برادران کتنی بار کڈنی ہسپتال کو کیش کریں گے؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا سب سے بڑا وعدہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا، جس کے لیے وہ بار بار مختلف اندازوں سے وعدے کرتے رہے۔ الیکشن کمیشن کے قواعد ضوابط سر آنکھوں پر، لیکن یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایک امیدوار بیک وقت دو دو یا تین تین حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔ یہ ضابطہ بنانا از حد ضروری ہے کہ ایک امیدوار اپنے ایک حلقے سے الیکشن لڑسکے گا۔ دوبارہ ضمنی انتخابات پر کروڑوں کا خرچہ الگ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ شہباز شریف بیک وقت لاہور اور سوات سے انتخابات لڑکر دراصل یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پورے پاکستانی کے قومی راہنما ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو آج لاہور کے ساتھ ساتھ مینگورہ اور منگلور میں بھی بجلی کی چکا چوند ہوتی۔ طالبان دور میں تو انہوں نے مجموعی طور پر پختونوں کو اور خاص طور پر سواتیوں کو اٹک کے پار جانے پر پابندی لگائی تھی۔ ہم کیسے ایک قوم ہیں کہ جس وقت ہم پر بارود برستا رہا، تو لاہور میں بسنت منائی جارہی تھی، ویلنٹائن ڈے منایا جارہا تھا۔ میں آج بھی پسینے میں شرابور اندھیروں میں ڈوب رہا ہوں اور تم روشنیوں میں کھیل رہے ہو۔
اور عمران خان صاحب! وہ آپ کے تین سو عدد بجلی گھر کہاں گئے؟ اس سے ہمیں کیا فائدہ ملا؟ میں سوات کا ایک غریب باشندہ ، نا سمجھ، سادہ اب اتنا تو جان گیا ہوں اور سمجھ گیا ہوں کہ تقریروں، جلسوں، ٹی وی اشتہاروں اور سوشل میڈیا پر جو کوئی بھی بجلی، سڑکوں، ہسپتالوں اور سکولوں کی ترقی کی بات کرے گا، تو میں اپنے غریب، ویران اور مسائل میں گھرے ہوئے منگلور کو دیکھوں گا کہ یہاں پچھلے پانچ سالہ دور میں نیا سکول اور کالج کہاں ہے، نیا ہسپتال یا بی ایچ یو کہاں بنا ہے، نئی سڑک اور موٹر وے کہاں ہے؟ بجلی اور پانی کی صورت حال کیا ہے؟ منگلور کے باشندوں کو خوب علم ہے کہ کوئی نئی سڑک، راستہ، سکول اور کالج نہیں ہے۔ گاؤں اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، تو پھر میں ترقی کے دعوے کیسے مان لوں؟ جو میری اور میرے گاؤں کی پسماندگی کی بری حالت ہے۔ اسی طرح ہر جگہ بلکہ سارا ملک ہے۔ اگر یہاں نہیں تو کہیں بھی ترقی نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے سوات اور خاص کر منگلور کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سکول کیا ہے۔
پچھلے پانچ سالہ دور میں قومی اسمبلی کے منتخب ممبر صاحب پانچ مرتبہ بھی منگلور تشریف نہیں لائے ۔ کارکردگی تو دور کی بات، رابطہ تک نہیں رکھا۔ اب پتا نہیں کس منھ سے منگلور کے عوام کا سامنا کریں گے؟ شرم و حیا تو ہے نہیں، لیکن منگلور کے لوگو، بیدار ہوجاؤ! یہ تم سب کا جمہوری حق ہے کہ ان لوگوں کو گریباں سے پکڑ کر پچھلی کارکردگی کا پوچھو کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ جو اَب دوبارہ ووٹ مانگنے آئے ہو؟ پارٹی وفاداری اور پارٹی وابستگی اپنی جگہ لیکن اپنے گاؤں اور علاقے کے مفادات کا کون خیال رکھے گا؟ یہ بھی تو حقیقت ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈوں اور خالی خولی وعدوں سے مزید کام نہیں چل سکتا۔
ہم نے اس بار پورا مینڈیٹ تحریک انصاف کی جولی میں ڈال دیا، لیکن افسوس نتیجہ صفر رہا۔ مسائل حل ہوئے اور نہ سوات کو عزت و احترام ہی ملا۔ مراد سعید صاحب پر ووٹوں کی بارش یہاں ہوئی، لیکن افسوس مرادیں کسی اور کی بھر آئیں۔
9 اور 10جولائی کی درمیانی شب مسلسل پانچ گھنٹے لوڈشیڈنگ رہی۔ گرمی کا عذاب اور مسلسل بے خوابی کے کٹھن مراحل، کوئی ہم سے پوچھے کہ کتنے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں؟
سوات کے لوگو! ووٹ کی قدرجانو۔ یہ ایک قیمتی پرچی ہے۔ اس بار رشتوں ناتوں، حسب نسب پر ووٹ مت دو۔ کارکردگی پر دو۔ اچھے برے کی پہچان کرو۔ دوست اور دشمن کو پہچانو۔ ایسی قیادت اور نمائندوں کا انتخاب کرو جس کے گریبان تک تمہارا ہاتھ پہنچ پائے، جنہوں نے اس علاقے کے امن وامان کے لیے خون کی قربانی دی ہو۔ وہ لہو ہم سواتیوں پر قرض ہے۔ آج نکلیں، اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں، سر اونچا کرکے اپنے قیمتی ووٹ سے وہ قرض ادا کریں جو واجب الادا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔