الیکشن 2018ء
روح الامین نایابؔ
بہت عرصے سے قارئین اصرار کررہے ہیں کہ ’’آپ الیکشن پر کچھ کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ اب کیا لکھوں، کیا لکھنے کو کچھ باقی رہ گیا ہے؟ میں کچھ سچ کچھ جھوٹ لکھتے ہوئے ڈر رہا ہوں۔ کیوں کہ سب کچھ دو میں تقسیم ہوگیا ہے۔ تیسرا راستہ کوئی نہیں، لیکن کیا کروں؟ قارئین کرام کو مایوس بھی نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ نہ کچھ لکھوں گا اشاروں میں، کنایوں میں تحریر کروں گا، سمجھنے والے سمجھ جائیں گے، جو نہ سمجھے وہ اناڑی نہیں بلکہ بہت کچھ سمجھ کر انجان بننے کا ڈرامہ کررہے ہوں گے۔
قارئین کرام! جب تک یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں گے بہت کچھ سامنے آچکا ہوگا۔ اب تو ہر دیوار پہ لکھا ہے، ہوائیں کہہ رہی ہیں۔ اب تو شریف النفس، غریب پرور سراج الحق صاحب بھی بول پڑے ہیں کہ پہلے سے فکس نتائج کے الیکشن کرانے کا کیا فائدہ؟ یہ بھی کبھی عوام کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ اوپر سے مولانا فضل الرحمان صاحب بھی بول پڑے کہ سب کے ہاتھ باندھ کر ایک شہزادے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ آصف زرداری کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ بجائے اس کے کہ عمران خان وزیراعظم ہو، اچھا ہے کہ باجوہ صاحب خود اقتدار سنبھال لیں۔ ذرا اس بیان پر سوچ لیں بہت گہرا اور ذو معنی بیان ہے۔ میں تفصیل بتانے سے قاصر ہوں۔ مسلم لیگ ن تو لٹھ لیے تیار بیٹھی ہے اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے۔ ان کو پتا ہے کہ اس بار ہماری باری نہیں۔ مسلم لیگ اقتدار سے زیادہ اپوزیشن میں خطرناک ہوتی ہے۔ اس بار تو ان کے ساتھ یکے بہت ہیں۔ الیکشن کے بعد اُن کی پوزیشن کے مطابق اُن سے سلوک کیا جائے گا۔ فی الحال نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ اڈیالہ جیل میں آرام فرمائیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ پچیس جولائی کے نتائج کے بعد نئی تبدیلی آئے گی۔
مرکز میں ایک معلق پارلیمنٹ میں تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔ عمران خان نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیا تھا کہ اگر مرکز میں میری واضح اکثریت نہ آئی، تو میں کسی سے اتحاد کیے بغیر اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کروں گا۔ یہ ایک پیغام تھا ان قوتوں کے لیے جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ وہ اس بار عمران کو اپوزیشن میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ اس بار خان صاحب کو صاحبِ اقتدار بناکر ذرا اختیارات اور کرسی کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں، اور اسے سیاست کے آسمان سے نیچے حقائق کی زمین پر لانا چاہتے ہیں۔ آپ سب کو پتا ہے کہ حقائق کیا ہیں؟ لہٰذا اُن قوتوں نے عمران کی کمی کو پورا کرنے کا بندوبست کردیا ہے۔ پچیس یا چھبیس آزاد بندے آسانی سے ہر وقت دستیاب ہوں گے۔
قارئین، تحریک انصاف کو حکومت تو مل جائے گی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کی وزیراعظم بننے کی آرزو پوری ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کوئی سر پھرا عین موقع پر وزیراعظم بننے کی ضد پکڑے۔
محترم عمران خان کبھی کبھی عجیب بیانات دیتے ہیں۔ جولائی کے اوائل میں ایک بیان آیا تھا کہ نواز شریف خود کچھ بھی نہیں، اُسے فوج نے نوازشریف بنایا تھا۔ ہم تو ایسی بات اور سچ آئندہ سو سال میں بھی نہیں کہہ سکتے اور پھر اس میں کیا شک ہے؟ نواز شریف کا ماضی سب کو معلوم ہے۔ وہ بڑا ڈھیٹ ہے۔ اُسے جلد از جلد اس کی غیر حاضری میں سخت سزا سنا دی گئی (قانوناً سزا سننے کے وقت مجرم کا عدالت میں ہونا ضروری ہے) کہ یہ ڈر کے مارے نہ آئے، لیکن وہ مع بیٹی کے بہت آرام و سکون سے آگیا۔ یہ لوگ حیران بلکہ پریشان ہوگئے۔ یہ تو تاریخ کا جبر ہے۔ یہ جبر الٹا بھی ہوسکتا ہے۔ کل کیا ہوگا، کس کو کیا پتا؟ کبھی کبھی اچھا خاصا پلان چوپٹ ہوجاتا ہے۔ بہرحال عمران کے اُس بیان میں بھی ایک پیغام تھا کہ فوج نواز کو نواز شریف بنا سکتی ہے، تو کیا عمران کو عمران خان نہیں بناسکتی؟ حالاں کہ فوج کا ان کاموں سے کیا تعلق؟ اسے اپنی مصروفیت سے فرصت نہیں۔ یہ عمران خان کی خوش فہمی ہے جو اس غلط فہمی میں روزِ اول سے مبتلا ہے۔
قارئین، عجیب صورت حال ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی انتخابات، پہلے سے اتنے متنازعہ نہیں ہوئے۔ ہر دوسرا آدمی اور تمام سیاسی لیڈر حضرات عجیب و غریب خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی بھی عجیب انسان ہیں کہ کہا کہ انجینئرڈ انتخابات نے کبھی بھی پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔ اوپر سے بلاول بھٹو بار بار کہہ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ اور پارٹیوں کو الیکشن سے روکا جارہا ہے اور ایک پارٹی کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ انہی خدشات کا اظہار اے این پی کے اسفندیار ولی صاحب بھی بار بار کر رہے ہیں۔ اب پتا نہیں یہ سب کو کیا ہوگیا ہے؟ اللہ خیر، 25 جولائی (یعنی آج) کے بعد کیا ہوگا؟ کیوں کہ تمام تجزیہ نگاروں کے تبصرے اور تجزیے اس نقطہ پر آکر سوالیہ نشان بن گئے ہیں کہ ’’اصل معاملہ بلکہ ہنگامہ تو 25 جولائی کے بعد شروع ہوگا۔ اُس معاملے اور ہنگامے کے لیے مسلم لیگ نواز ابھی سے لنگوٹ کسنے کی تیاری کر رہی ہے۔
قارئین کرام! اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد کیا آنے والی حکومت چل پائے گی؟ کیا وہ ایک پائیدار حکومت ہوگی؟ سب تجزیہ نگار اور سیاسی دانشور اس آنے والی حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ اُن کے خیال میں یہ ایک کمزور حکومت ہوگی اور بہ مشکل سال، ڈیڑھ سال بھی نہیں چل سکے گی۔ یہ وقت و حالات کے آگے ڈھیر ہوجائے گی۔
قارئین کرام! حالیہ مستونگ، بنوں اور پشاور کے دہشت گردانہ خونی واقعات نے اس الیکشن کو لہو لہو کردیا ہے۔ یہ خلاف توقع کارروائیاں تھیں۔ کیوں کہ عوام دہشت گردی کو بھول گئے تھے۔ اچانک دھماکوں نے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی ٹوٹی ہوئی کمر آخر پھر کون سے ’’سیمنٹ‘‘ سے دوبارہ جُڑ گئی؟ کیا دہشت گردی کے واقعات دہشت گردوں کی مرضی اور خواہش پر مبنی ہیں کہ وہ جب چاہیں، تو کسی وقت بھی بے گناہ عوام کا خون بہا سکتے ہیں؟ تینوں واقعات نہایت افسوسناک اور درد ناک ہیں۔ ان پر جتنا غم کیا جائے کم ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ امن وامان کا ہے جو ابھی تک حل طلب ہے۔
قارئین کرام! ایک اور بڑا مسئلہ معیشت کا ہے۔ اس وقت ڈالر ایک سو پچیس روپے کا ہے۔ اگر یہی حالت رہی، تو تحریک انصاف کی حکومت میں ڈالر ایک سو پچاس روپے کو بھی کراس کر جائے گی، جس کرپشن کا عمران خان واویلا مچا رہے ہیں، جن ٹیکس دہندگان کو وہ ٹھکانے لگانے والے ہیں، یہ سب ڈر کے مارے اپنا پیسہ باہر بھیج دیں گے۔ مزید سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ باہر سے زرمبادلہ آنا بند ہوجائے گا۔ ملکی معیشت بیٹھ جائے گی اور وہی صورت حال ایک بار پھر پیدا ہوجائے گی جو 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت کے آنے سے پیدا ہوئی تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ موجودہ نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ نظام میں ملک کے سرمایہ داروں جاگیرداروں اور بااختیار طبقوں سے کوئی حساب کتاب نہیں مانگ سکتا۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ طبقات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ حساب کتاب مانگنے والا خود کارنر ہوجاتا ہے اور اُسے خود لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیے، نواز شریف نے بھی با اثر قوتوں سے حساب کتاب ہی مانگا تھا، کیا حشر ہوا؟
قارئینِ کرام! خیبر پختونخوا اور سندھ میں مینڈیٹ منقسم ہوگا۔ کوئی ایک پارٹی حکومت نہیں بنا پائے گی۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف آزاد ممبران کو ملاکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں شائد آجائے۔ ہر جگہ یعنی مرکز اور صوبوں میں مضبوط اپوزیشن ہوگی اور سارے ایوان مچھلی بازار کا نظارہ پیش کررہے ہوں گے۔
قارئین، یہ میرے اندازے ہیں۔ ضروری نہیں کہ صحیح ہوں، غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات اَپ سیٹ قسم کی صورتِ حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اچانک وہ واقعات سامنے آجاتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔