جاوید اقبال توروالی
کسی قوم کی شناخت اس کی ماں بولی سے ہوتی ہے۔ زبان چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، بلکہ بولنے والے کم یا زیاد ہوتے ہیں۔ کئی زبانیں بین الاقوامی سطح پر عروج پاجاتی ہیں، تو کئی معدومیت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کی بنیادی وجہ زبانوں کا تحریر میں نہ ہوناہے۔ جو زبانیں عالمی سطح پر اُبھر گئی ہیں، ان کے بولنے والے بھی ترقی یافتہ قومیں بن گئی ہیں۔ کیوں کہ وہ زبانیں تحریر میں تھیں اور تعلیم کا حصہ تھیں۔ جو زبانیں مٹ گئیں، تو اپنے ساتھ اپنے اسپیکرز کی قومی و ثقافتی روایات کو بھی لے ڈوبیں۔ جو زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، ان کی قومی شناخت اور ثقافتی روایات اور ادبی خزینے بھی عدم کی کھائی میں گرنے والے ہیں۔ جو زبانیں تحریر میں نہیں، تعلیم کا حصہ نہیں اور ان کے بولنے والے بھی ان سے لاپروائی برتنے لگیں، تو آئندہ نسلوں تک سینہ بہ سینہ منتقلی کا یہ سلسلہ بھی آخرِکار ختم ہوجاتا ہے۔ 
قارئین، زبانوں کی اہمیت و اِفادیت اور بقا کی خاطر ہر سال 21 فروری کو عالمی زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔ اِمسال ادارہ برائے تعلیم و ترقی (آئی بی ٹی) نے گذشتہ ماہ 21 فروری کو بحرین کے ایک مقامی ہوٹل میں مادری زبانوں کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں زبانوں کی بقا اور زبانوں کو درپیش خطرات کو قابو میں لانے اور اپنی زبان کومعیاری بنانے کے لیے تعلیمی ماہرین اور کارکنوں نے خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام میں ایک طویل دورانیہ سوالات و جوابات کا سلسلہ بھی تھا جس میں شرکا کھل کر اپنی اپنی رائے بھی دیتے اور مختلف مسائل پر سوالات بھی کرتے، جن کے شرکا نے تفصیلی جوابات دیے۔ 
قارئین، اس پروگرام میں لوگوں کی شرکت کا معیار دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ایسے سیمینارز جن کا تعلق علاقے کی ترقی اور زبان کی بنا پر ہو، تو تب عوام کے جذبۂ حب الوطنی اور حب اللسانی کا پتا چل جاتا ہے۔ باوجود خراب موسم کے 80 فیصد شرکا نے دور دراز علاقوں سے سفر کرکے تقریب میں بروقت اپنی حاضری یقینی بنائی۔ 
یہ تقریب اس قبیل کی دوسری تقریبات سے یک سر منفرد تھی، کہ اس میں سامعین نے بھی بحث میں بھرپور حصہ لیا۔ اکثر تقاریب میں سامعین ساکت و جامد بیٹھتے نظر آتے اور مقررین اسٹیج پر اپنے فلسفے جھاڑتے رہتے ہیں، مگر یہ مذاکرہ مکمل طور پر غیر رسمی تھا جس میں مقررین کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی شرکا نے حصہ لیا اور دقیق سوالات اٹھائے، جن کے جوابات دینے کی کوشش مثالوں کے ساتھ کی گئی۔ تقریب میں توروالی زبان کے علاوہ گاؤری، اُوشوجو، پشتو، گجری، پلولہ اور دیگر زبانیں بولنے والے افراد نے شرکت کی۔ یہ منعقدہ پروگرام توروالی قوم کے لیے باعثِ فخر ہے۔ کیوں کہ یہ تقریب توروالی کمیونٹی کے بیچ منائی گئی اور اس کا انعقاد ’’آئی بی ٹی‘‘ نے کیا جو توروالی زبان کی اشاعت و ترویج کے لیے کئی سالوں سے سرگرمِ عمل ہے۔ دوسری بات اس محفل میں عوام کو مرکزی مقررین کے سامنے اپنی رائے کھل کر پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا، تاکہ ہر فرد اپنی خدشات اور تحفظات کے بارے میں ماہرین سے پوری جانکاری حاصل کرسکیں۔ 
پروگرام کے مرکزی مقررین میں محترم جناب فخرالدین صاحب ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فورم فار لینگویج انیشیٹیوز (ایف ایل آئی)، زبیر توروالی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے تعلیم و ترقی (آئی بی ٹی) اور مصنف و محقق محترم ڈاکٹر حضرت بلال تھے۔ ان حضرات نے زبانوں کے بارے میں مفصل و مدلل اور جامع انداز میں سیر حاصل گفتگو کی اور شرکائے محفل کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ پروگرام کی نظامت آفتاب احمد کررہے تھے جنہوں نے بڑی جانفشانی سے اس پروگرام کو لیڈ کیا۔ اس تقریب کے بنیادی نِکات یہ تھے: 
* زبان اور شناخت:۔زبان اور شناخت کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کس طرح زبان انسانوں کی شناختی علامات میں سب سے واضح طور پر سامنے آتی ہے؟ 
* زبان اورثقافت:۔ کسی قوم کی ثقافتی روایات کو زبان کے ذریعے سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ زبان ہی ہے جس سے کسی قوم کا ادبی و علمی ورثہ نہ صرف محفوظ ہوتا ہے، بلکہ اگلی نسلوں تک بھی منتقل ہوتا ہے۔ 
* زبان اور تعلیم:۔ زبان کے بغیر تعلیم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم و زبان کا گہرا رشتہ ہے۔ زبان کی وجہ سے ہی انسان اشرف المخلوقات قرار دیا گیا اور اسی کی بدولت انسان نے دوسری مخلوقات پر سبقت حاصل کی۔ مادری زبانوں میں تعلیم کی اہمیت اب مسلمہ ہے اور اس کی وجہ سے تعلیم معیاری، سہل اور ثقافت سے ہم آہنگ بن جاتی ہے۔ بچے اپنی مادری زبان کے ذریعے معیاری تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کو دوسری زبانوں کو سیکھنے کے لیے مؤثر ذریعہ پاتے ہیں۔ 
* زبان اور سیاست:۔ زبانیں سیاسی سرپرستی ملنے سے فروغ پاتی ہیں۔ زبان کا مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور جو اپنی نوعیت میں ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ سیاست اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ تحریکِ پاکستان کے زمانے سے سیاسی رہا ہے۔
اس کے علاوہ زبان سماجی روابط کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے ۔