پروفیسر سیف اللہ خان
12 جون 2018ء کو کسی نجی ٹی وی چینل سے میں نے خود نگران مرکزی وزیرِ برقیات، جناب علی ظفر صاحب کو بولتے سنا کہ اُسے نہیں معلوم کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُنہیں صبح و شام ملک میں بجلی کی صورت حال پر جو رپورٹیں دی جاتی ہیں، اُن سے ملک میں لوڈشیڈنگ کی موجودگی کا پتا نہیں چلتا۔
آگے میں نہ سن سکا۔
قارئین کرام! مجھے سرکاری دفاتر میں لمبے عرصے تک ملازمت کا موقع ملا ہے۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ چھوٹے افسرز اور ملازمین کس طرح کارکردگی پوچھنے والے اعلیٰ افسران کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ اس لیے میں اپنے کالموں میں بار بار یہ عرض کرتا ہوں کہ مخبری کے نظام کا ایک مناسب حصہ محکموں کی کارکردگی کی طرف موڑا جائے۔ اس وقت مارکیٹ اور مافیا غالب اور حکومت مغلوب ہے۔ سرکار خواہ منتخب ہو یا غیر منتخب، ممبرانِ اسمبلی خواہ کسی بھی جماعت کے ہوں، یہی مغلوبیت اُن کو ناکام کردیتی ہے۔
جو بھی سیاسی لیڈر ملازمین کی رپورٹوں کی بنیاد پر اُچھل کود کرتا ہے، مجھ جیسے بوڑھے زیرِ لب مسکرا دیتے ہیں۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ وزیر صاحب، وزیراعظم صاحب نمک کے گھروندے میں رہتے ہیں اور بارش کی پہلی بوند اُسے دن میں تارے دکھادے گی۔ اب نگران وزیر محکمہ بجلی نے خود یہ دیکھا کہ صبح و شام اُسے جو رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ اُس سے لوڈشیڈنگ کا پتا نہیں چلتا۔ دوسرے الفاظ میں محکمہ بجلی کے متعلقہ حکام یا تو رپورٹ میں سچائی نہیں لکھتے یا گول مول اور متبادل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ علی ظفر صاحب تو خیر سے غیر منتخب ہیں لیکن منتخب وزرا کی بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ حالاں کہ ان کے ساتھ پارٹی کارکنوں کے سٹریٹس ورکرز بے شمار ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے جونہی ممبران منتخب ہوجاتے ہیں وہ ایک چھوٹے سے لیکن نہایت سخت دائرے میں مقید ہوجاتے ہیں۔ پھر اُن کے اور کارکنوں کے درمیان اور ان کے اور اچھے سرکاری آفیسرز کے درمیان رابطہ صفر کے قریب ہوجاتا ہے۔ درست معلومات پارٹی ورکروں کے ذریعے آسانی کے ساتھ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
موجودہ وزیرِ بجلی کا بیان بہت سبق آموز ہے لیکن بدقسمتی سے نگران حکومت کا عرصہ بہت کم ہے۔ یہ خود کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ البتہ طریقہ میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ اگر نگران وزیر بجلی واپڈا کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ غیر واپڈا حکام سے بھی رینڈم بنیاد پر معلومات حاصل کرنے کا طریقہ متعارف کروائے، تو حکمرانوں کی معلومات درست اور اُن کو بہتر فیصلوں کے مواقع حاصل ہوں گے۔ بجلی کی بندش، کمی اور غیر معیاری ہونے کی کئی وجوہات ممکن ہیں۔ بڑی کمی اخلاص، دیانت اور اہلیت کی ہے۔ پھر محکمہ بجلی کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ ہر دوسرے محکمے کو مغوب کرسکتی ہے۔ بہتر نظامِ حکمرانی کے لیے ایک یا چند محکموں کے پاس زیادہ طاقت نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے اچھی حکمرانی کے لیے کسی بھی شخص، مافیا، ادارے یا محکمے کی طاقت کا توڑنا ضروری ہوتا ہے۔ خواہ اُس کے لیے ’’فاشسٹ‘‘ طریقے کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں۔
ایک ملک کی زراعت، صنعت اور پیداواری صلاحیت، اُس ملک میں دوسرے ممالک کی اشیا کی مارکیٹنگ مشکل بنا دیتی ہے۔ اس لیے مفادات کا تقاضا بن جاتا ہے کہ اپنے مال کی فروخت کے لیے دوسرے ملک کی اپنی صلاحیتوں کو ناکارہ بنایا جائے۔ غالباً یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیتوں کو کمزور کیا جا رہا ہے، تاکہ دوسرے ممالک کے تاجروں اور پاکستان کے اپنے متعلقہ تاجروں کی تجوریاں بھری رہیں۔
بجلی لوڈشیڈنگ شاید دشمن عناصر پاکستان کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرنے لگے ہیں۔ تاجروں کا بھی اس میں بے پناہ فائدہ ہے۔ بجلی لوڈ شیڈنگ نے جنریٹرز وغیرہ کی درآمد اور مارکیٹنگ میں اضافہ کیا۔ عوام اور خواص پر مالی بوجھ بڑھایا۔ شور اور دھویں کے ذریعے عوام کی ذہنی صلاحیتوں کو برباد کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ چوں کہ ملک کے حکمرانوں میں بڑی تعداد تاجروں کی ہے، اس لیے حکومتی اختیارات قوم کی ترقی پر کم اور ان کے منافع پر زیادہ مرکوز ہوتی ہیں۔ بجلی لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لیے مخلصانہ کوشش ہمارے یہاں مفقود ہے۔ اگر صدرِ مملکت کے گھر اور دفتر، وزیراعظم اور وزرا کے گھروں اور دفاتر، چیف جسٹس اور دوسرے جج صاحبان کے گھروں اور دفاتر، اعلیٰ فوجی اور سویلین سرداروں اور کمانڈروں، سویلین اشرافیہ کے گھروں اور دفاتر میں اُسی طرح بجلی لوڈشیڈنگ کروائی جاتی جس طرح ایک عام شہری کے گھر، دکان، دفتر، سکول، ہسپتال میں کی جاتی ہے، تو یقیناًلوڈشیڈنگ کا خاتمہ کئی سال پہلے کروایا گیا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ غلام ذہنیت کے با اختیار افراد، حکمران اشرافیہ کو متبادل ذرائع فراہم کرکے عوام کی حالتِ زار سے بے خبر رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ وزیر بجلی سے بھی حقائق چھپائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی ’’کمی‘‘ کی وجہ اگر تکنیکی ہے، تو اس کی وجہ بدکرداری بھی ہے۔ جب سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ ملک میں گیس اور بجلی کی کمی ہے، تو پھر عوام کو دھوکا دینے، اُن سے پیسے اور ووٹ بٹورنے کے لیے مزید علاقوں کو ’’گیس اور بجلی فراہم‘‘ کرنے کے ڈرامے کیوں رچائے جاتے ہیں؟ بڑے مشہور سفید پوش کہتے ہیں: ’’ہم نے اتنے دیہاتوں کو گیس اور بجلی فراہم کی۔‘‘ خدا کے بندوں جب تمہارے اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور میں گیس اور بجلی کی کمی ہے، تو پھر مزید دور افتادہ دیہاتوں کو کیوں لوٹتے ہو؟ سیدھی بات کرو کہ گیس اور بجلی نہیں پائپوں، میٹروں، تاروں اور دوسری ضروریات کی فروخت، کمائی اور مشینوں کے حصول کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہو۔ چوں کہ پارلیمان پر بھی ان کمیشن خوروں کا قبضہ ہے، اس لیے عوام کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہوتی۔
پاکستانی معاشرہ اور عوام جدید مغربی جمہوریت سے استفادہ کرنے کی فی الحال صلاحیت نہیں رکھتی۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور کنٹرولڈ حکمرانی کی یہاں بڑی ضرورت ہے۔ وطنِ عزیز کے گیس کے ذرائع ہمیشہ موجود نہ ہوں گے، نہ دنیا میں تیل کے ذخائر ہمیشہ موجود ہوں گے۔ ذہین اقوام نے جہاں اپنے ذرائع کو سر بہ مہر کرکے محفوظ کردیا ہے، وہاں وہ سولر انرجی جیسے متبادل کی طرف بھی جارہے ہیں اور ہم تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے لوگ آج بھی جہالت اور خود سری میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں زمین کا عظیم رقبہ جنگلات کی کاشت کے لیے دستیاب ہے، لیکن جنگلات اُگانا تو دور کی بات، ہم درختوں اور پودوں کے دشمن ثابت ہورہے ہیں۔ کل اگر گیس کے خزانے ختم ہوسکتے ہیں، تو آج سے کثیر ترین شجر کاری کرکے آنے والے حالات کے لیے تیاری کی جاسکتی ہے۔ انسانی آبادی میں بڑے اضافے، مشرق و مغرب کی طرف سے غیر ملکیوں کی پاکستان آمد، منی سوچ اور غیر مقامی ’’کلچر‘‘ کے فروغ کا خاتمہ ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے اور یہ بغیر تربیت یافتہ کارکنان کے ممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ تعمیر و ترقی فرنی کے پلیٹ میں ملی ہو۔ اس کے لیے سخت محنت، دیانت اور احتساب، تادیب اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چہ یہ کام مشکل ہے، لیکن قوم کو ہمیشہ اپنا ووٹ ان ذمہ داریوں کے اہل افراد کو دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔