17 اکتوبر 1965ء کو 63 ماڈل کی ایک ٹویوٹا کار میں ابوہا گاؤں سے ہم میاں بیوی نے جس طلاطم خیز زندگی کا آغاز کیا تھا، وہ 45 سالہ رفاقت 5 جنوری 2010ء کو ختم ہوگئی۔ اِن 45 سالوں میں ہم نے زندگی کے مہربان رُخ بھی دیکھے اور نا مہربان بھی۔ زندگی کے آخری 8 سال اُس پر بہت بھاری گزرے۔2002ء میں راولپنڈی کے ہارٹ انٹرنیشنل ہسپتال میں اُس کا کڈنی ٹرانسپلانٹ کا عمل ہوا۔ پھر پنڈی کے کئی پھیرے لگے۔ بلال ہسپتال کے آغاز ہی سے ہمارے وہاں کئی بار جانا ہوا۔ آخرِکار 8 سال بعد باقی ماندہ واحد گردے نے مزید ساتھ دینے سے معذوری کا اظہار کیا۔ جنوری 2010ء کو وہ کوما میں چلی گئی جب وہ اپنا وظیفہ پڑھ رہی تھی۔ پھر اُس کی زبان پر صرف اللہ کا نام رہ گیا۔ یہی ورد کومے میں بھی اُس کی ہر سانس کے ساتھ سنائی دیتا رہا۔
اُن دنوں ہم پر مختلف مشکلات بہ یک وقت ٹوٹ پڑیں، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دِہ ایام وہ تھے جو ہم نے ہجرت میں گزارے۔ جب واپس آئے، تو پھر راولپنڈی چک اَپ کے لیے جایا کرتے تھے۔ درگئی پھاٹک پر جان گسل انتظار کے بعد جانے کی اجازت ملتی۔
آخری بار جب کہ وہ مکمل کومے میں تھیں، ہم اُن کو رضائی میں لپیٹ کر پشاور ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ایک روحانی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔اُنھوں نے کار ہی میں میری شریکِ حیات کا چک اَپ کیا اور کہا کہ اب بات چند گھنٹوں کی ہے۔ ہم مایوس ہوکر واپس روانہ ہوئے، تو درگئی پھاٹک پر ہمیں دیرتک روکا گیا۔ بہر کیف اگلے دن کوئی 4 بجے شام کو اُس نے آخری بار آنکھیں کھولیں۔ اُس کا چہرہ ایسا سرخ تھا اور نیلی آنکھوں میں ایسی چمک آگئی تھی، جیسے کسی کو بہت اچھی خبر ملی ہو۔
شام سے پہلے اُسے گھر کے قریبی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا۔ گھر میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ میرے ایک بیٹا باہر تھا۔ بڑا بیٹا اور بیٹی میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے اور ہم تینوں نے مل کر اپنا دکھ بانٹ لیا۔ اللہ اُسے بہشت میں سب سے اعلا مقام نصیب فرمائے، آمین!
مرنے سے کچھ دن قبل وہ چیڑ کے درخت کے قریب لیٹی تھی۔ مَیں لان چیئر پر اس کے قریب بیٹھا تھا۔ کہنے لگی: ’’خان! مجھے بخش دو اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہو۔ مَیں نے بھی تم کو معاف کیا۔‘‘پھر زور سی ہنس کر بولی:’’ایک بات کا دکھ ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں تمھاری دوسری شادی کرنی چاہیے تھی۔ تم تو اتنے کاہل ہو، اپنے بالوں میں تیل بھی نہیں لگاسکتے۔ تیرے یہ خوب صورت بال جھڑ جائیں گے۔‘‘
مَیں نے جواباً کہا: ’’نیک بخت یہ اِن باتوں کا وقت نہیں۔ رہی دوسری شادی تو مجھے معاف رکھیو!‘‘
45 سال پلک جھپکتے گزرگئے۔ آج اُس کو گزرے 14 سال پورے ہوگئے۔ کوئ ایسا دن نہیں گزرتا، جس میں اُس کا کسی نا کسی طرح ذکر نہیں آتا۔
شریک حیات کی یاد میں
