فضل محمود روخان

1914ء میں چوں کہ میاں گل عبد الودود آزاد سوات کے حکم ران منتخب ہوگئے، تو اُمورِ سلطنت چلانے کے لیے سنڈا کئی بابا کی تجویز پر حکم رانِ سوات نے حضرت علی خان کو وزیرِ ریاست یعنی وزیرِ اعظم مقرر کر دیا اور ایک نمایندہ جرگے نے اس کی توثیق کردی ۔
مذکورہ جرگے میں حبیب خان آف دارمئی بر سوات، حمزاللہ میاں سر سردارے، سعد اللہ خان، امیر خان بانڈئی نیک پی خیل، نوشاد خان ، جمروز خان، عمل خان، محمود خان، سلطنت خان بر سوات، عمرا خان، شیر افضل خان اور شیر زادہ خان شامل تھے۔
حضرت علی خان ایک ’’جینیس‘‘ اور قابل انسان تھے۔ وہ اپنے دور کے ایک اچھے کاتب اور وجدانی خوبیوں کے مالک تھے۔ ریاست سوات کے دفتری انتظامات سب اُن کے مرہونِ منت تھے۔ وہ بیدار اور باتدبیر خصلت کے حامل تھے۔
میاں گل عبد الودود المعروف ’’بادشاہ صاحب‘‘ کے ساتھ وزیرِ اعظم حضرت علی کی وفاداری زندگی کے آخری دم تک تھی۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ زندگی کی آخری عمر میں حکم رانِ سوات نے اُن کو اپنا وزیرِ اعظم مقرر کیا تھا۔
حکم رانِ سوات نے اُن کو وزارت کی ابتدا میں اپنی بیٹی شہزادی سوچہ بی بی کو حضرت علی خان کے نکاح میں دیا تھا۔ جب یہ وزیرِ ریاست مقرر ہوئے، تو اُن کے چھوٹے بھائی کشر وزیر احمد علی خان اُن کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ کی منصب پر فائز ہوئے۔ بونیر و خدو خیل کا علاقہ ان کی ذاتی دل چسپی سے فتح ہوا۔ جنکی خیل، مدین اور بحرین حبیب خان دارمئی کی معیت میں فتح ہوئے۔ دیر، دربند اور چترال سے سوات کے سرحدی علاقوں کی حفاظت باوردی سپاہیوں سے زیادہ اُن کی تدبیر اور اعلا پالیسی سے ممکن ہوئی۔
حضرت علی خان 28 سال مسلسل وزیرِ اعظم رہے۔1942ء میں ولی عہد شہزادہ میاں گل عبدالحق جہان زیب کے ساتھ انتظامی اُمور پراختلافات آنے کی وجہ سے وزارت سے مستعفی ہوئے اور درگئی کے قریب وزیر آباد میں سکونت اختیار کی۔ یوں ریاستِ سوات کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کَہ دیا ۔
(پشتو کتاب ’’تاریخِ ریاستِ سوات‘‘ از ’’سرن زیب سواتی‘‘ سے ایک اقتباس کا ترجمہ)