فضل رازق شہاب
مَیں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر اپنے اکاونٹ سے سیدو بابا مزار کی ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں لکڑی کا ایک پُل نظر آرہا ہے۔ مذکورہ پُل کے دوسرے اینڈ پر ایک تو شاہی محمد ولد نظرے حاجی صاحب کی کپڑے کی دُکان تھی۔ کبھی کبھی امیر زادہ اُستاد صاحب بھی کپڑا ناپتے نظر آتے تھے۔
ایک دُکان حافظ بختیار حاجی صاحب کی تھی گروسری والی۔ ہم اُن سے ماہانہ اُدھار کے طور پر چائے، گڑ، آٹا وغیرہ لاتے تھے۔ زیادہ تر میرا بھائی سلطان سودا سلف لاتا تھا۔
بلال حافظ جی صاحب اس سے پہلے افسر آباد کے سرکاری مسجد کے امام تھے۔ پھر اُنھوں نے سرسینئ سے اپنے ایک چچا حافظِ قرآن کو بُلواکر اسی مسجد میں امام لگوایا۔ غالباً فضل ہادی نام تھا اُن کا۔ لمبی سرخ داڑھی خضاب سے رنگتے تھے۔ چہرے کا رنگ سرخ اور اُس پر چیچک کے مدہم سے داغ تھے۔اس کے کئی بیٹے تھے ۔کوئی پوچھتا کہ مولوی صاحب آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟ تو ذرا سوچ کر بتاتے: ’’پتا نہیں 7 دلھنوں کی اولاد ہے!‘‘
موصوف کئی سال بعد دورانِ حج خوارج کے قبضۂ کعبہ کے دوران میں شہید ہوگئے تھے۔
اب آیئے، پُل کی دوسری جانب۔ قریب ہی پکی دُکانوں میں عبدالمولیٰ ماما کی دُکان تھی کپڑے کی۔ یہیں پر ایک موچی پرانے جوتوں کی مَرمت کرتے تھے۔ یہ 1961ء کا واقعہ ہے، مَیں اسی سال یکم جولائی سے ریاست کے محکمۂ تعمیرات میں 18 سال کی عمر میں بھرتی ہواتھا۔
عبدالروف طوطا بھی میرے ساتھ ہی نوکری پر لگ گیا تھا۔
اُس وقت عبد الروف طوطا کے والد عبدالحمید خان سیدو پولیس تھانے کے انچارج تھے۔ویسے تو وہ اپنے تمام عملے کے لیے بہ منزلہ باپ کے تھے…… لیکن ایک سپاہی صابر نامی اس کا بہت چہیتا اور فرماں بردار تھا۔ ہم دفتر میں شاید دو تین مہینوں سے آنے لگے تھے۔
اس دوران میں اچانک ایک خبر آگ کی طرح پھیلتی ہوئی ہمارے دفتر تک آگئی، جو اُن دنوں سیدو ہسپتال کے سامنے صرف دو بڑے کمروں اور ایک برآمدے پر مشتمل تھا۔ سامنے کھلی سڑک تھی اور دوسرے کنارے ہسپتال کا واٹر ٹینک اور ڈینٹل بلاک تھا۔
خبر یہ آئی کہ صابر نے اسی لکڑی کے پل کے قریب جوتیاں مرمت کرنے والے موچی کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص کو پستول کی گولی سے قتل کردیا ہے، اور خود تھانہ آکر گرفتاری دی ہے۔
سمجھو قیامت آگئی تھی۔ قتلِ عمد اور وہ بھی دارالخلافہ میں۔ جائے وقوع سیدو بابا کی مسجد کے قریب اور شاہی دفاتر کے قریبی حدود۔ اتنا بڑا جرم…… اتنی دیدہ دلیری…… ایک گولی نے سارے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا۔
عبدالحمید صاحب تو کافی تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب اُس کے پسندیدہ سپاہی کی چند سانسیں ہی باقی ہیں۔ اُس کے بعد کیا ہوا……؟
والئی سوات نے اس بات کا کتنا سخت اثر لیا ہوگا۔ قاضیوں نے صابر کا اقبالی بیان سنا۔ گواہ بھی کافی تھے۔ فوراً ’’قصاص‘‘ کا حکم جاری ہوا۔
ہم دفتر کے برآمدے میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ صابر کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ چند پولیس ساتھ تھے۔ تھانے دار عبدالحمید نے آخری کوشش کی کہ جنابِ عالی مقتول کا وارث برسوات سے آجائے، تو قصاص وہ لے گا……!
مگر والی صاحب نے کہا: ’’اس وقت مقتول کا وارث ریاست ہے اور تم ریاست کی نمایندگی کرتے ہوئے صابر کو خود گولی ماروگے۔‘‘
اور بالکل ایسا ہی کیا گیا۔