ابراہیم خان
آج جس موضوع پر قلم اُٹھارہا ہوں، شاید یہ سب سے اہم ایشو ہے۔ تعلیمی تربیت ایک اہم ذمے داری ہے، جس سے مستقبل کے پیشہ ورانہ مہارت والے افراد نکلتے ہیں، لیکن یہاں نظام خراب ہونے کی وجہ سے امتحانی نظام بھی انتہائی فرسودہ ہے۔ یہ بچوں کی صحیح جانچ پرکھ نہیں کرتے ۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن چیئرمین کے مطابق موجودہ سسٹم آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ نظامِ تعلیم اور خصوصاً امتحانی نظام انگریز نے غلام قوم کے لیے بنایا تھا۔ تعلیمی بورڈ باقاعدہ ایک مافیا بن چکا ہے اور ایک کاروباری ادارے کا روپ دھار چکا ہے۔ طالب علم کا تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔ ذہین بچوں کو کم زور اور رٹو توتوں کو ’’قابل‘‘ قرار دینا سوات بورڈ کا کام ہے۔ پرچوں کی چیکنگ باقاعدہ ’’چیکنگ مافیا‘‘ سے کروائی جاتی ہے۔
اس حوالے میری طرف سے کچھ گزارشات اور سفارشات پیشِ خدمت ہیں، اگر انھیں درخور اعتنا سمجھا جائے، تو کچھ بہتری کی صورت دیکھی جاسکتی ہے۔
٭ سرمایہ دار کے بچوں کا امتحانی ہال میں خصوصی خیال رکھا جاتاہے۔ کیوں کہ تحفے تحائف اور دعوت سے امتحانی ڈیوٹی انجام دینے والوں کا خاص خیال جو رکھا جاتاہے۔
٭ منظورِ نظر افراد کی امتحانی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے۔ ایمان دار اساتذہ امتحانی ڈیوٹی سے کتراتے ہیں۔ کیوں کہ اس کام کے لیے کنٹرولر کے پاؤں دبانا پڑتے ہیں، جو ان اساتذہ سے نہیں ہوسکتا۔ بعض اساتذہ کے 30 سالہ ڈیوٹی کیرئیر میں ایک ڈیوٹی بھی نہیں لگائی گئی ہے۔
٭غریب اور کم زور طبقہ کے لوگوں کے بچوں کو اگر کوئی مسئلہ آبھی جائے، یہ بورڈ عملہ سے ڈرتے ہیں۔ کیوں کہ مذکورہ ’’مافیا‘‘ ان کے لیے آگے مسائل کھڑا کردیتا ہے ۔
٭ سوات، بونیر اورشانگلہ کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ سرٹیفکیٹ وصولی کے لیے رات یہا ں گزار تے ہیں۔ کیوں کہ یہ بورڈ کا افسر طبقہ صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک غیر ضروری میٹنگوں میں مصروف عمل رہتا ہے اور یہ عمل تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سرٹیفکیٹ کی فیس ایک ہزار روپے ہے، جب کہ دیگر اخراجات چار ہزار کے لگ بھگ آجاتے ہیں۔
٭ چیئرمین صاحب دوپہر کے بعد سوجاتے ہیں۔ جس سے بھی کافی طلبہ کو مالی، جانی اور ذہنی اذیت پہنچتی ہے۔ طوطالئی یا گبرال سے آئے ہوئے طلبہ شام 5 بجے تک انتظار کرتے ہیں۔ کیوں کہ ’’بادشاہ سلامت‘‘ کے آرام میں خلل نہ پڑجائے۔
٭نام، ولدیت اور تاریخِ پیدایش میں اگر معمولی غلطی آجائے، تو کافی ثبوت ہونے کے باوجود متعلقہ شخص کو اپنے سکول سے داخل/ خارج رجسٹر لانے کے لیے دوبارہ بھیجا جاتاہے۔ سرکاری سکول کا ہیڈ ماسٹر صاحب رجسٹر کے ساتھ نوکر بھیج دیتا ہے، جس کا خرچہ بھی طلبہ کے اُوپر آتا ہے۔
٭ تقریبا ً3 مہینے پہلے جعلی ڈگریوں کے “Correction Case” میں 3 ایمپلائیز کو “Demote” کیا گیا ہے۔ اس طرح اگر ایک سٹوڈنٹ کو Correction کا معمولی مسئلہ بھی سامنے آتا ہے، تویہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا کَہ دیتاہے، جہاں وکیل کی فیس 50 ہزار اوور ٹائم کم از کم ایک سال ضرور لگتا ہے۔
پرسوں ایک برخوردار کا یہی مسئلہ پیش آیا، جس کی پرائمری اور مڈل میں تاریخِ پیدایش یکم جنوری 2005ء تھی، لیکن ’’میٹرک ایگزام‘‘ میں فارم بھروانے میں بدقسمتی سے 13 مئی 2001ء لکھی گئی تھی۔ اس کی بھی عدالت سے تصحیح کا کہا گیا۔ اکثر طلبہ و طالبات کچھ ایسے ہی مسئلے کو مصیبت جان کر تعلیم کو خیر باد کَہ دیتے ہیں ۔
٭ حالیہ انٹر ریزلٹ میں فزکس اور میتھس پیپر کا جو حشر نشرہوا، اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ خپل کورماڈل سکول کے ڈائریکٹر محمد علی صاحب نے مرض کی بر وقت تشخیص کرکے اپنے آپ کو مسئلے کی تہہ تک پہنچایا۔ اپنے ادارے کے طلبہ کے پیپرز / ری چیکنگ/ ری ٹوٹلنگ میں دوبارہ مارکنگ کرکے پاس کرایا۔ فیصلے کا اطلاق سارے ایگزام دینے والے سٹوڈنٹس کے اُوپر کیاجانا چاہیے تھا، لیکن……!
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
٭ یہ کہ مارکنگ میں اتنی بڑی غلطی کیوں کی گئی، جس کی وجہ سے محنتی طلبہ فیل جب کہ کام چور پاس قرار دیے گئے؟
٭ امتحانی ڈیوٹی میں حصہ لینے والے سارے خواہش مند اساتذہ کا ’’ڈرا‘‘ کے ذریعے انتخاب کیاجانا چاہیے تھا۔
٭ یہ کہ اگر مارکنگ ٹھیک ہوئی ہو، امتحانی نظام ٹھیک ہو، بورڈ عملہ اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے نبھارہا ہو، تو پھر گذشتہ “MDCAT” میں بورڈ ٹاپروں نے نمایاں کام یابی کیوں حاصل نہیں کی؟
٭مارکنگ کے لیے پرچے متعلقہ مضمون کے اساتذہ کو گھروں میں یا بورڈ میں چیک کروانے، چیکنگ کے لیے مناسب وقت دینے، معقول معاوضہ دینے اور پرچوں کی شرح کم از کم رکھنے کے بارے میں بورڈ کو کام کرنا چاہیے۔
٭ چیکنگ سٹینڈرڈ کے لیے متعلقہ اساتذہ سے ’’بونڈ‘‘ دستخط کروانا لازم قرار دیا جائے۔ اگر کوئی غلطی آجائے، تو متعلقہ استاد ذمے دار ہوگا۔
جاتے جاتے اتنا ہی کہوں گا کہ بورڈ عملے کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کے لیے مشکلات کی بہ جائے آسانیاں پیدا کرے۔