عزیز احمد آمین
محترم جناب صدرِ مملکت، جناب وزیرِ اعظم پاکستان، جناب چیف جسٹس آف پاکستان، جناب وفاقی وزیرِ تعلیم، جناب سابقہ وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا پرویز خٹک صاحب، موجودہ وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا محمود خان صاحب، صوبائی وزیرِ تعلیم، صوبائی وزیرِ خزانہ، صوبائی سیکرٹری تعلیم اورجملہ سیکرٹریزخیبر پختونخوا، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!
صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکاری مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے پڑھانے والے ایس ایس ٹی (سیکنڈری سکول ٹیچر) گذشتہ 29 سال سے ہر قسم کی ترقی اور پروموشن سے محروم چلے آرہے ہیں۔ حالاں کہ اِ س دوران میں سرتوڑ کوششیں کی گئیں، لیکن تاحال کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ ہر دور کے وزیرِ اعلا اور دیگر اربابِ اختیار کے دروازے کھٹکھٹائے گئے لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ سو جب کچھ نہ ہو ا، تو اساتذہ کرام مایوس ہوکر بیٹھ رہ گئے
جنابِ والا! 5جنوری 2015ء کو اس معرکے نے دوبارہ جنم لیا جب صوبائی اسٹینڈنگ کمیٹی نمبر 26 برائے تعلیم نے بلوچستان اور دیگر صوبوں کی طرز پر ایس ایس ٹیز کی اَپ گریڈیشن، ٹائم سکیل اور سروس سٹرکچر دینے کی متفقہ قرارداد صوبہ خیبر پختونخوا نے منظور کی۔ اُس وقت کے وزیرِ اعلا جناب پرویز خٹک صاحب تھے اور اُن کی کابینہ میں وہی اراکین اَب بھی اِس حکومت کا حصہ ہیں۔ کوئی وزیر اعلا ہے، تو کوئی بھی منسٹر۔ ان تمام کی موجودگی میں ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا، لیکن تاحال بڑی تگ و دو کی گئی اور ہور ہی ہے لیکن پھر بھی کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس قرارداد کی رو سے ایبٹ آباد کے ہائی کورٹ بنچ نے بھی ایس ایس ٹی اساتذہ کے حق میں فیصلہ دیا بلکہ اس فیصلے کے خلاف ”سی او سی“ بھی ہوچکا ہے، لیکن تاحال اس پر کوئی عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ اس دوران میں بے شمار مرتبہ پرویز خٹک صاحب، صوبائی وزرا اور سیکرٹریوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے گئے، ہزار بار منت سماجت کی گئی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ پرویز خٹک صاحب وزیرِ تعلیم اور دیگر تمام وزرا کے وعدے اور یقین دہانیاں سرد خانے کی نذر ہوگئیں۔ اس سلسلے میں ایک بہت بڑا مظاہرہ پشاور پریس کلب میں 2018ء میں ہوا جس میں ہمارے ساتھ اپ گریڈیشن کا وعدہ کیا گیا، لیکن ایک بار پھر حکومتی اراکین مکر گئے، تو ایک دفعہ پھر پشاور اسمبلی کے سامنے2019ء میں ایک بڑا دھرنا دیا گیا۔ نتیجتاً اس میں بھی وعدہ کیا گیا کہ آپ کو پروموٹ کیا جائے گا، لیکن نتیجہ وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔
وزیرِ اعلا محمود خان صاحب کے اس جاری دور میں ہم نے وزیرِ اعلا صاحب کے ساتھ 10/12 مرتبہ ملاقاتیں کیں۔ انہیں اپنی محرومیوں سے آگاہ کیا۔ اس طرح ہر وزیر اور سیکرٹری اور اربابِ اختیار کو اپنا فائل حوالہ کیا،لیکن پھر بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ پس 4 جنوری 2021ء کو ایس ایس ٹی اساتذہئ کرام نے اسمبلی کے بالکل سامنے دھرنا دیا جسے سیکرٹری تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیم کے تحریری معاہدے کی صورت میں مؤخر کر دیا گیا۔ معاہدے میں پندرہ دنوں کے اندر اندر اپ گریڈیشن کا عمل انجام پانا تھا، لیکن ڈیڑھ ماہ گزر گئے اور معاملہ جوں کا توں ہے۔ ان ڈیڑھ ماہ میں ہم نے منت سماجت اور گذارشات کے ریکارڈ توڑ ڈالے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ یوں یہ سلسلہ 16 فروری 2021ء کے دو بجے تک چلتارہا۔ پھر اسی دن کی اپ گریڈیشن کمیٹی کی پروموشن میٹنگ میں ایک بار پھر تمام اربابِ اختیار وعدے سے مکر گئے اور ہمیں دوبارہ 22 فروری کو دھرنے پر مجبور کیا،جس کی تمام تر تیار ی کی گئی تھی۔ اس دھرنے کے خطوط ایک بار پھر تمام ارباب اختیار بشمول وزیر اعلا اور دیگر وزرا کو ارسال کیے گئے۔ اس دوران میں 19 فروری 2021ء کو ہماری فائل پروپوزل کے ساتھ اَپ گریڈیشن کے لیے فنانس سیکرٹری کو بھیجی گئی۔ صوبائی سیکرٹریوں کے اصرار پر 22 فروری کا دھرنا ایک بار پھر مجبوراً مؤخر کیا گیا۔ یوں ایک اور تاخیری حربہ استعمال کرکے ہمیں اپنے جائز حقوق مانگنے سے روکا گیا۔
اس تحریر کا آخری اور کلیدی نکتہ وہ حقائق ہے کہ 1991، 2007، 2012ء اور 2016ء تک چار دفعہ دیگر تمام کیڈرز جن میں PSTs, TTs, ATs, DM, PETs, CTs, SS وغیرہ اسکیل 7 سے 16، 18 اور 19 میں پروموٹ ہوگئے ہیں۔ ان کی مکمل تفصیل نہ صرف موجود ہے بلکہ ہر ایک اس سے مکمل طور پر فیوض حاصل کر رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہی ایس ایس ٹیز 1991ء سے لے کر 2021ء تک صرف پرسنل 17 میں دس سال بعد ترقی پاتے ہیں اور پھر اُسی پرسنل 17 میں ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ یہی ایس ایس ٹی پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ابتدائی طور پر گریڈ 17 میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور ریگولر حیثیت سے آگے ترقی کرتے کرتے گریڈ 19 میں ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں، لیکن خیبر پختونخوا میں اس کیڈر کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایس ایس صاحبان پہلے گریڈ 15 میں تھے، جب کہ ایس ایس ٹی سکیل 16 میں تھے، تاہم 1994ء میں ایس ایس صاحبان کو ڈائریکٹ گریڈ17 دیا گیا، جب کہ ایس ایس ٹی کو وہی گریڈ 16 میں رہنے دیا گیا۔
آج کی اِس تحریر میں آپ تمام صاحبان کو ایک تو ایفائے عہد کا تذکرہ کرنا مقصود تھا۔ اس طرح کچھ حقائق بھی سامنے رکھنا تھے اور آخر میں اُن حقائق کی روشنی میں آپ تمام سے انصاف کی صورت میں محرومیوں کے ازالہ کے لیے مکمل داد رسی اور نوٹیفیکیشن کے اجرا کی درخواست اور اُ س پر من و عن عمل کرنے کی استدعا کرنا مقصود تھی۔اُمیدہے آپ گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر اِس کا مطالعہ کریں گے۔ قرآنِ انقلاب، کتابِ رُشد و ہدایت میں اللہ تعالا نے دو جگہ فرمایا ہے: ”و اوفو بالعہد اِن العہد کان مسئولا“ (ترجمہ): اور وعدوں کے ساتھ ایفا کرو بے شک وعدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اِسی طرح ایک اور جگہ فرمانِ خداوندی ہے: ”یاایہا الذین امنو لم تقولون ما لا تفعلون“ (ترجمہ) اے ایمان والو، وہ بات کیوں کرتے ہو جو پورا نہیں کرتے۔
قرآنِ کریم کے ساتھ ساتھ پیغمبرِ اسلامؐ اور پیغمبرِ انقلابؐ نے بھی فرمایا ہے: ”لا دین لم الا عہد لہ و لا ایمان لم الا امانت لہ“ (ترجمہ): جو وعدے پورا نہیں کرتے، اُن کا دین نہیں اور جو امانت کا خیال نہیں رکھتے اُن کا ایمان نہیں۔
اِ ن احکامِ الٰہیہ اور ارشاداتِ نبیؐ سے صاف ظاہر ہوا کہ جو لوگ وعدہ نہیں نبھاتے وہ دُنیا و آخرت میں گناہ گار ہیں بلکہ اُن کے لئے سخت سے سخت وعیدیں سُنائی گئی ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اِس بات کی شاہد ہے کہ وہ وعدوں اور قول کے اتنے پکے تھے کہ اس کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس طرح جب تک اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرتے، انہیں چین آتا اور نہ اُ س جگہ سے ہلتے جب تک اپنا کیا ہوا وعدہ نہ نبھاتے۔
مذکورہ بالا مشران جن میں شاید صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان اِس پوری تفصیل سے ناواقف ہوں گے۔ لہٰذا اُن کی خدمتِ اقدس میں خصوصی طور پر عرض ہے کہ اس پوری تفصیل کا بہ نظرِ عمیق جائزہ لے کر ہماری ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے نوٹیفیکیشن کا اجرا کریں، تاکہ نہ صرف بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہو بلکہ دھرنے کی وجہ سے مریضوں، بوڑھوں، خواتین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو مزید اذیت کا سامنابھی نہ کرنا پڑے۔
اُمید ہے کہ آپ صاحبان اپنے انتہائی قیمتی وقت سے اس محروم طبقے کے لیے تھوڑا سا وقت نکال کر ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
اللہ تعالا آپ کا سایہ ہمارے سر پر قائم و دائم رکھے، آمین!