ساجد علی سالارزئی
قارئین، چوں کہ میں قانون پڑھ چکا ہوں، اس لیے مجھے روز عجیب و غریب سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ قانون کے سوالات کچھ غیر قانونی انداز میں پوچھنے لگتے ہیں، جیسا کہ ایک صاحب نے پوچھا: ’’اگر میں سامنے والے کتے کو پتھر مار دوں، تو مجھ پر قانون کا کون سا دفعہ لگے گا؟‘‘ اس شخص پر دفعہ لگتا ہو یا نہ ہو، لیکن وہی پتھر اس کو مارنے کا ضرور دل کرتا ہے۔ کئی سارے لوگوں کو اکثر غلط جواب دے کر بھی جان چھڑا دیتا ہوں۔ کیوں کہ ان کو کون سے قانون کے دفعات کا علم ہوتا ہے۔ وہ غلط کو صحیح سمجھ کر داد دیتے ہیں۔
پچھلے ہفتے زندگی میں پہلی بار کراچی سے میرے ماموں جان کا فون آیا۔ میں بڑا خوش ہوا کہ میری یاد آگئی ان کو، لیکن فرمانے لگے کہ فلاں علاقے میں ہمارا گھر تھا۔ اس پر عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ کیس ہم نے جیت لیا ہے، مگر مخالف فریق اب بھی اس گھر میں رہ رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح ان لوگوں کو گھر سے نکالا جائے؟ قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ شکر اللہ تعالی کا کہ اس وقت یہ بہانا کارگر ثابت ہوا کہ ’’ماموں جان، میں کتاب میں یہ مسئلہ دیکھ کر آپ کو بتاتا ہوں۔‘‘ حالاں کہ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس حوالہ سے کون سی کتاب میں کون سا دفعہ دیکھنا ہے؟ مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار شروع ہوگیا۔ میں حیران و پریشان تھا کہ تنازعے کی صورت میں عدالت جانا پڑتا ہے، مگر کیس تو ماموں پہلے ہی جیت چکے ہیں۔ ہاں! اوپر عدالت کو اپیل کرنا ٹھیک ہے، لیکن اپیل تو تب ہوتی ہے جب عدالتی فیصلے پر اعتراض ہو۔ فیصلہ تو ٹھیک ہے، اب کیا کروں؟ غنڈے بھیج دوں کیا؟ مگر مَیں کون سے غنڈہ گروہ کا سرغنہ ہوں۔
خیر، آخرِکار میں نے شانگلہ کے معروف وکیل سلطان روم صاحب سے رابطہ کیا۔ انھوں نے دو شبدوں میں بتا بھی دیا اور سکھا بھی دیا۔ یقین مانیں اتنا آسان حل تھا کہ یقین نہیں آرہا تھا، تو استادِ محترم احمد حسین صاحب نے بھی وہی الفاظ فرما دیے۔ ان سے پوچھتے وقت میں کچھ شرم بھی محسوس کر رہا تھا، مگر اب بار بار پوچھنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اگر ان سے نہ پوچھتا، تو شاید سیکھ نہ پاتا۔
قارئین، ڈھیر سارے طلبہ صرف اس وجہ سے کسی سے پوچھتے نہیں کہ لوگ مجھے نالائق سمجھیں گے۔ حالاں کہ نالائق ہونے میں شرم نہیں بلکہ نالائق بننے اور رہنے میں شرم ہے۔ کلاس میں اکثر طلبہ سوال نہیں پوچھتے کہ استاد صاحب غصہ ہوجائیں گے یا دوسرے طلبہ ہنس پڑیں گے۔ صرف اسی بنا پر وہ سبق سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں طلبہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد دوسروں سے سیکھنے کا عمل چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ اب آپ نے مزید نہیں سیکھنا یا آپ گرو بن چکے ہیں، یا پھر اگر آپ نے سیکھنے کی خاطر کسی سے کچھ پوچھا، تو عزت خاک تلے دب جائے گی۔ یاد رکھیے، جو جتنا بڑا عالم ہوگا، اتنا ہی اس کے سوال کو اہمیت دی جاتی ہے، جن لوگوں کے پاس سوالات پوچھنے کا ہنر ہوتا ہے، جواب ان کو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتا ہے۔ آدھا علم صحیح سوال پوچھنے سے حاصل ہوتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب جناب فہیم نعیم صاحب کی کلاس میں، مَیں نے چار مرتبہ نفی میں سر ہلایا، تو جناب کو پانچویں بار وہی ٹاپک پڑھانا پڑااور بالکل غصہ نہیں ہوئے۔ کیوں کہ وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’پوچھتے رہیے اور سیکھتے رہیے۔‘‘
ڈھیر سارے لوگوں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ کسی سے علم کی خاطر پوچھنے میں شرماتے نہیں تھے،اور نہ اپنی کم علمی کو کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بننے دیتے تھے۔کیونکہ اگر آپ پوچھیں گے، نہیں تو پھر آپ صرف وہی سیکھ پایءں گے، جو سامنے والا کہہ رہا ہوتا ہے، نہ کہ وہ جو آپ کو سیکھنا چاہیے یا آپ سیکھنا چاہتے ہیں۔
سوات یونیورسٹی کے لا ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین امجد ہلال صاحب کی کامیابی کا راز جاننے کی میں نے کئی بار کوشش کی۔ دو تین وجوہات انھوں خود بتا دیں، اور جو میں نے نوٹ کیا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بھی ان کو کسی چیز کے بارے میں معلوم کرنا ہو، تو وہ اپنے ہی شاگردوں کے پاس جاکر ان سے پوچھتے ہیں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ ڈیپارٹمنٹ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ اس طرح کرنے سے ان کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
قارئین، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، تو اصول یہ ہے کہ جہاں سیکھنا ہو، وہاں پوچھنا پڑے گا اور پوچھتے وہی ہیں جو کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ تو بس پوچھتے رہیے اور سیکھتے رہیے۔
*۔۔۔*۔۔۔*