ہمارے ملک میں تین اہم عوامی مسائل ہیں۔ تعلیم ، صحت اور انصاف ۔آج ہمار ا موضوع صحت ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے محکمۂ صحت صوبے کے مکمل اختیار میں ہے۔صحت اور تعلیم کے لئے بجٹ میں سب سے زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے ۔لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو اس رقم کا بیشتر حصہ تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جاتاہے۔ بچی کچی رقم ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت پر خرچ ہوتی ہے۔ہمارے حکمران بیماری کے علاج کے بارے میں سوچتے ہیں اور ا س کے لیے خطیر رقوم مختص کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر بیماریوں کے اسباب اور اس سد باب کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جاتی ہے۔ اگر بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ بیماریوں کی وجوہات کے بارے میں سوچا جائے۔ اس بارے تحقیق کے لیے بجٹ میں کچھ رقم مختص کی جائے، تو یقینابہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔سوات کی مثال لی جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ سوات جو اپنے ماحول ، موسم اور صاف وشفاف پانی کے لیے پوری دنیا میں مشہور تھا، اب آلودہ آب و ہوا کی وجہ سے یہاں کے عوام کے لیے بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔پہلے دوسرے علاقوں کے لوگ اپنے شہروں کو آلودہ آب و ہوا کی وجہ سے چھوڑ کر یہاں کی صحت افزا آب و ہوا کا مزہ لینے آتے تھے۔ اب یہ علاقہ آلودہ آب و ہوا کی وجہ سے اپنے باسیوں کے لئے موت کا گڑھ بن رہاہے ۔ لیکن یہاں کے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس صورتحا ل کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام بھی ہیں، جو اپنے کاروباری مقاصد اور منافع کمانے کی لالچ میں یہاں کا ماحول آلودہ کرنے میں بھرپور کردار اداکررہے ہیں۔کالام سے لے کر لنڈاکی تک دریائے سوات کے کنارے پر واقع تمام ہوٹلوں اور دیگر آبادیوں کے گٹروں کاگنداپانی دریائے سوات میں شامل ہوجاتا ہے، جو آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لئے موت کا سبب بن رہاہے۔ سوات میں یرقان (ہیپٹائٹس) سے متاثرہ لوگوں کی تعداد دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے ۔ عام طور پر اس مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ مرض انسان کے وجود میں سرایت کرچکا ہوتاہے۔اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے۔ اس کے علاوہ ضلع سوات میں جگہ جگہ قائم غیر قانونی کرش مشینیں تین قسم کی آلودگی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔ جس میں زمینی ، فضائی اور آبی آلودگی شامل ہے۔ کرش مشین سے خارج شدہ دھول جب مٹی میں مل جاتی ہے تو یہ زمین میں موجود مائیکرو حیاتیات کے لئے موت کا سبب بن جاتاہے۔ یہی وہ مائکرو حیاتیات ہیں جو زمین کی ذرخیزی میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔اس کے علاوہ زیرِ زمین پانی میں مل کر پانی کو آلودہ کردیتی ہے۔ اگر یہ دھول دریا یا ندی میں شامل ہوجائے تو پانی کو زہریلا بنادیتی ہے ۔ جو آبی جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے صحت کے لیے نقصان دہ ہوتاہے۔ اگر یہ دھول فضا میں پھیل جائے توہوا میں شامل ہوکر انسان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن کے ساتھ داخل ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پھیپھڑوں کی بیماریاں بہت زیادہ ہیں۔ کرش مشینوں سے پیدا یہ دھول انسان کے وجود میں ایک خاص حد سے زیادہ داخل ہوجائے تو دھول سے عارضی بیماری کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کا سرطان (کینسر) لاحق ہونے کا خطرہ ہوتاہے۔ لیکن اس کے اثرات بہت بعد میںیعنی سالوں بعد سامنے آتے ہیں۔کرش مشینیں اگرچہ وقت کی ضرورت ہیں لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے اردگرد ماحول ایک خاص حد سے زیادہ آلودہ نہ ہوجائے۔ ان مشینوں کے لگاتے اور چلاتے وقت حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہوتاہے۔ ایک خاص عرصہ بعد قریبی آبادی اور ہسپتال سے رابطہ رکھنا چاہیئے تاکہ ان مشینوں سے پھیلنے والی ممکنہ بیماریوں کی شرح کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکے۔ اگر بیماریوں یا مریضوں کی شرح بڑھ رہی ہے تو کرش مشین کے طریقۂ کار میں تبدیلی لانی چاہئے۔دھول کو فضا میں پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کرش مشینوں سے نکلنے والی دھول ،مٹی میں ملے نہ پانی میں شامل ہو۔ یونی ورسٹی آف سوات کے شعبۂ ماحولیات اور سیدو میڈیکل کالج کے اساتذہ اور طلبہ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو ایسی اسائمنٹس دیں جس سے علاقے میں آلودگی کے اسباب اور اس کے حل بارے تحقیق میں مدد مل سکے۔ دوسری طرف میڈیکل کے طلبہ کسی علاقے میں جاکر وہاں آلودگی سے ہونے والی بیماریوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس کا سبب معلوم کرکے اس کے حل کے حوالے سے اپنی تحقیق کرسکتے ہیں۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ بجٹ میں بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے اسباب جاننے اوراس کے سد باب کے لیے بھی رقم مختص کیا کرے۔
ضلعی ، بلدیاتی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ صرف ان ہوٹلز اور کرش مشینوں کو کام کرنے کے اجازت نامے جاری کرے جو حفظانِ صحت کے اصول پر پوری طرح عمل پیرا ہوں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کو مختلف اوقات میں اچانک معائنہ بھی کرنا چاہئے۔ ہوٹلز اور کرش مشینوں کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جن سے علاقے کی آ ب و آلود ہ ہورہی ہے۔ مثلاً دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال وغیرہ۔ان سب کی روک تھام کے لیے بھی متعلقہ اداروں کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ان اقدامات سے یہاں کا ماحول صحت مند رہے گا، جس سے حکومت کو ہسپتالوں او ر بیماریوں کے علاج کے لیے کثیر رقم نہیں خرچ کرنی پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔