عمران علی ورک

پاکستان اور چین نظریاتی لحاظ سے دو مختلف ملک، مگر ان کی دوستی دنیا کےلیے مثال ہے۔ دونوں نہایت قریبی اور مضبوط سیاسی و معاشی تعلقات کے لحاظ سے دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات کوئی نئے نہیں بلکہ گزشتہ سات دہایوں پر محیط ہیں اور ان کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ پاکستان اور چین دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ عوام بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور دوستی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عام پاکستانی کی زبان پر صرف یہ ہی الفاظ ہوتے ہیں ’’پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے‘‘ جبکہ چینی لوگ پاکستانیوں کے بارے میں ’’پاتھیئے’ پاتھیئے‘‘ کہتے نہیں تھکتے، جس کا مطلب ہے کہ لوہے جیسا دوست۔ پاکستان اور چین کی اس دوستی، ان الفاظ اور نعروں کے بارے میرے دماغ میں ہر وقت ایک ہی سوال گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا یہ دوستی واقعی اتنی ہی مضبوط، بے مثال اور لازوال ہے۔ چینیوں کے بارے میں پاکستانیوں کی رائے جاننے کےلیے میں نے بہت سے دوستوں اور عام شہریوں سے پوچھا تو ہر ایک کی اپنی رائے تھی لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

بلآخر یہ جاننے کےلیے مجھے چین جانے کا موقع ملا۔ میرے ساتھ مختلف صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والے اور ساتھی بھی تھے۔ جب ہم چین جانے کےلیے ایئرپورٹ پہنچے تب بھی میرے دماغ پر یہ سوال سوار تھا، لیکن خوشی یہ تھی کہ جس دوستی کے بارے میں سنتے ہیں کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی، شہد سے زیادہ میٹھی اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہے، اس کی حقیقت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ خیر ہمارا سفر شروع ہو گیا۔ جہاز میں سوار ہو ئے تو ہمارے زیادہ تر ہمسفر چینی باشندے تھے جو پاکستان سے واپس اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ یہاں پر دل میں خیال آیا کہ پیارے نبیۖ کا فرمان ہے کہ ’’اگر کسی کے بارے میں جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرو، یا پھر اس کے ساتھ رہ کر دیکھ لو۔‘‘ سوچا کہ دونوں مواقعے مل گئے، سفر بھی کر رہے ہیں اور اکٹھے رہنا بھی ہے۔

طیارے نے بیجنگ کےلیے اڑان بھر لی، تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ جہاز میں مکمل سناٹا سا چھا گیا، سب ایک دوسرے کےلیے اجنبی تھے، ہر بندہ اپنی سوچ میں مگن تھا، لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ جہاں ہم جا رہے یں آخر وہ محبوب نگری کیسی ہو گی۔

تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ اب ہم پاکستان کی حدود کو چھوڑ کر چین میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام چینی مسافرسناٹا، خاموشی اور اجنبیت ختم کر کے اپنی نشستوں سے اٹھے اور ہمیں گلے لگا کر ’’چین میں خوش آمدید‘‘ کہنے لگے۔ ان کے ان الفاظ سے میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مجھے میرے پاک چین دوستی کے حوالے سے سوال کا آدھا جواب مل گیا۔

اب چین کے بارے میں مزید جاننے کےلیے میرے اندر جستجو اور بڑھ گئی۔ جہاز جوں جوں اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا، میں اپنی سوچوں میں مگن تھا کہ جس محبوب نگری کے باشندے اتنے ملنسار ہیں وہ خود کتنی خوبصورت ہو گی۔ تقریباً تین سے چار گھنٹے کی مسافت کے بعد کپتان نے پھر اعلان کیا کہ اب سے کچھ ہی دیرمیں ہم بیجنگ لینڈ کر جائیں گئے۔ اس کے بعد تو چینی مسافروں نے مزید جوش و خروش کیساتھ ہمیں گلے لگایا اور کہا کہ بیجنگ میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور جب ہم جہاز سے نیچے اترے تو ہر چینی شہری کی یہ ہی کوشش تھی کہ ہم ان سے پہلے اتریں۔

ان کی جانب سے اس عزت افزائی اور محبت پر ہم سب دوست حیران تھے اور سوچ رہے تھے کہ آخر یہ لوگ پاکستانیوں کی اتنی عزت کیوں کرتے ہیں، ہم میں ایسا کیا ہے۔ خیر تمام مسافر اپنی اپنی منزل کی طرف چل نکلے، ہمیں بھی چین کی مشہور درسگاہ رینمن یونیورسٹی آف چائنا کا طالبعلم اوکائے لینے کےلیے آیا ہوا تھا۔ وہ ہمیں یونیورسٹی لے گیا جہاں ہمیں غیر ملکی طلبا کے ہاسٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ ہاسٹل میں ہم نے تقریباً دس ماہ کا عرصہ گزارا۔ اس دوران مختلف مصروفیات کے ساتھ میں اپنے سوالوں کا جواب اور پاک چین دوستی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرتا رہا۔ مجھے اپنے تمام سوالوں کے جواب ایک اک کرکے ملتے گئے۔ سب سے پہلے مجھے میرے سوال کا جواب ہاسٹل سے ہی ملا جہاں تقریباً سب غیر ملکی رہائش پذیر تھے۔ اصول سب کےلیے ایک تھے لیکن ہاسٹل کا عملہ دوسرے غیرملکیوں کی نسبت ہماری عزت زیادہ کرتا تھا۔ جب ہم پاکستان کا نام لیتے تو سب چینی ہمیں سلام کرتے اور پاک چین دوستی ہمیشہ کےلیے کا نعرہ لگاتے۔

ہمارے ہاسٹل آنے جانے کے اوقات پر کوئی پابندی نہیں تھی، عملے سے لیکر چینی طالبعلموں، اساتذہ اور دیگر لوگوں کا ہمارے پاس ہجوم لگا رہتا اوران سب کی گفتگو کا محور صرف پاک چین دوستی، کلچر اور ثقافت ہوتی، جس پر بعض اوقات دیگر غیر ملکی ناراض بھی ہوتے کہ آخر یہ چینی پاکستانیوں کی اتنی عزت کیو ں کرتے ہیں۔

یہا ں میں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ ہمیں ایک پاکستانی دوست، جو کافی عرصہ سے چین میں مقیم ہیں نے بتایا کہ بیجنگ سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ساحلِ سمندر ہے جس کا نام بیداخہ ہے۔ ہم دوستوں نے سوچا کیو ں نہ اس کی سیر کی جائے۔ میں اور ایک دوست صبح سویرے بیداخہ کےلیے نکلے۔ ہم بیجنگ ریلوے اسٹیشن پہنچے، بلٹ ٹرین کے ٹکٹس خریدے اور ٹرین کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ہم نے ریلوے اسٹیشن دیکھ کر سوچا کہ ایسے تو ہمارے ائیرپورٹ بھی نہیں جتنے بڑے ان کے ریلوے اسٹیشنز ہیں۔

ہم بلٹ ٹرین میں سوار ہو گئے۔ یہ میرا بلٹ ٹرین کا پہلا سفر تھا، بہت ہی پُرسکون اور لطیف۔ ٹرین تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ ہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیداخہ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ یہ اسٹیشن آبادی سے ذرا ہٹ کر تھا۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک ٹیکسی والے سے بات کی، اس نے بیس یوآن کے عوض ہمیں ساحل سمندر پر پہنچایا۔ یہ جگہ بہت پیاری اور پرسکون تھی۔ ہم سہ پہر تین بجے تک وہیں رہے۔ ساحل پر ہماری ملاقات ایک چینی خاتون سے ہوئی جواپنے بھائی اور ماں کے ساتھ بیجنگ سے آئی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ ہم آمادہ ہوگئے، کیونکہ ہم علاقے سے زیادہ واقف نہیں تھے، لہٰذا سفر اچھا گزر جائے گا۔