روح الامین نایابؔ
سیاح، مصنف اور مشہور صحافی جناب فضل خالق صاحب کی اس تاریخی، خوبصورت اور جاذب نظر کتاب کی تقریبِ رونمائی خپل کور فاؤنڈیشن میں 14 اکتوبر بروزِ اتوار بوقت 11 بجے صبح منعقد ہوئی۔ اس پروگرام کی صدارت مصنف، ادیب پبلشر اور حال ہی میں لندن سے تشریف لانے والے جناب فضل ربی راہیؔ صاحب نے کی، جب کہ نظامت کے فرائض پشتو کے مشہور شاعر، ادیب اور محقق محترم عثمان اولس یار نے ادا کیے۔
خپل کور فاؤنڈیشن کے طالب علم شکیل کی تلاوتِ کلام پاک کے بعد عثمان اولس یار نے مختصر طور پر ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ اور اُس کے خالق ’’فضل خالق‘‘ کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا کہ یہ کتاب سوات کے آثارِ قدیمہ کے ساتھ ساتھ سوات کی تاریخ پر بھی ایک مستند دستاویز ہے۔ لہٰذا ہر طالب علم کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کتاب کی اہمیت کے بارے میں اٹلی کے مشہور آثارِ قدیمہ محترم لوکا ماریا اولیوری کا ویڈیو پیغام سکرین پر دِکھایا گیا۔ جناب لوکا ماریا اولیوری کا سوات کے آثارِ قدیمہ کے حوالے سے برسوں خدمات کے اعتراف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے اپنی اس خوبصورت کتاب کا انتساب ڈاکٹر لوکا ماریا اولیوری ہی کے نام کیا ہے جو اٹالین آرکیالوجیکل مشن سوات کے ڈائریکٹر ہیں۔
سوات میوزیم کے انچارج نیاز باچا نے اپنے خطاب میں کہا کہ کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں اور ایسی کتاب لکھنا تو بہت ہی مشکل کام ہے، جس کے مواد کے لیے وہ نگری نگری خود گھوما پھرا ہو، اگرچہ مصنف خود آرکیالوجسٹ نہیں، لیکن اس کے خلوص، کوشش اور شوق نے اُسے آج یہ علمی مقام عطا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا سوات میں آثار قدیمہ کے ذکر اور تحفظ کے بغیر شعبۂ سیاحت پورا نہیں ہوسکتا۔ خوبی اور خامی ہر کتاب میں ہوتی ہے، لیکن ہمیں مثبت سوچ سے کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے مصنف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فضل خالق صاحب کو اس خوبصورت کتاب لکھنے پر مبارکباد بھی دی۔
معزز مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید اور ہر کلے کہنے کے لیے خپل کور فاؤنڈیشن کے ہونہار طلبہ نے ایک خوبصورت گیت پیش کیا۔ یہ دل آویز گیت انگریزی، اردو، اور پشتو زبانوں کا ایک حسین امتزاج تھا جسے سامعین نے بہت سراہا اور تالیوں کی گونج میں بے پناہ داد دی۔
مصنف اور ادیب جناب فضل محمود روخان نے اپنے خطاب میں بدھا کو سوات کا اثاثہ اور سرمایہ قرار دیا کہ بدھا کے ہاتھی کا ہار اگر شانگلہ میں دریافت ہوسکتا ہے، تو بدھا کی پیدائش کیسے نیپال میں ہوسکتی ہے؟ انہوں نے آثارِ قدیمہ کے حوالے سے والیِ سوات کی کوششوں کا ذکر کیا کہ اُن کی کوششوں سے 1964ء میں ایوب خان نے سوات میوزیم کا افتتاح کیا۔ انہوں نے فضل خالق صاحب کو اس خوبصورت اور تاریخی کتاب لکھنے پر مبارکباد دی۔
نجی گرام کے افضل شاہ صاحب نے اپنے علاقے کے آثارِ قدیمہ کی دریافت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے آثارِ قدیمہ کے ساتھ ساتھ سوات میں سیاحت پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ افضل شاہ صاحب نے فضل خالق صاحب کو کتاب لکھنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب آثارِ قدیمہ اور سیاحت دونوں حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔
اس کے بعد ایک علمی شخصیت ڈاکٹر رفیع اللہ صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب آرکیالوجی میں ’’پی ایچ ڈی‘‘ ہیں اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کتاب پر آثارِ قدیمہ اور تاریخی دونوں حوالوں سے سیر حاصل گفتگو کی، لیکن جس اہم نقطے کی طرف انہوں نے شرکائے محفل کی توجہ مبذول کروائی، وہ علم کو عوام تک پہنچانے کے بارے میں تھا جسے علمی زبان میں پاپولرائزیشن (Popularization) کہتے ہیں، یعنی ایک تخلیق کو مشہور کرنا، رواج دینا، ہر دلعزیز بنانا۔ مطلب یہ کہ جب تک ایک فلسفے کے فارمولے کو عوام تک نہ پہچایا جائے، وہ تخلیق یا دریافت کامیاب نہیں ہوسکتی اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں ناکام ترین قوم ہیں۔ پشتون کتاب پڑھتے ہیں نہ خریدتے ہیں۔ یہ اہم کتاب بھی تحفوں میں چلی جائے گی، دوسری قیمتی کتابوں کی طرح گمنامی کے اندھیروں میں کھو جائے گی۔ پختونوں کو کبھی اس کتاب کے اندر کی علمی کاوشوں اور تخلیقات کا علم نہیں ہوسکے گا۔ حالاں کہ اس حوالے سے یہ کوئی پہلی کتاب نہیں بلکہ اس سے پہلے محمد پرویش شاہین اور فضل ربی راہیؔ صاحب نے بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔ کسی بھی علاقے کی علمی دریافت، ادبی شاہ کار، عہدِ قدیم کے آثار کے بارے میں وہاں کے مقامی افراد کی تخلیق ہی اہمیت رکھتی ہے نہ کہ باہر کا کوئی فرد۔ انہوں نے فضل خالق صاحب کو اس تاریخی تخلیق پر مبارک باد دی۔
شاعر اور ادیب ہمایوں مسعود صاحب نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے جنت گم گشتہ کی زبان کو خوبصورت اور نرم قرار دیا، اسے ادبی چاشنی کا بہترین نمونہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں قدیم آثار پر کوششوں کے حوالے سے ڈاکٹر لوکا کے ساتھ ڈاکٹر ٹوچی کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے قلم کے ذریعے سب کچھ محفوظ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے سوات کے بارے میں ایک مکمل تاریخ لکھنے کی تجویز دی اور خاص کر سوات پر ’’جبری حکومتی دور‘‘ پر کام کرنے کی درخواست کی۔
ہمایوں مسعود صاحب نے فضل خالق صاحب کی ادبی اور صحافتی کوششوں کو سراہا اور ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ لکھنے پر انہیں مبارک باد دی۔
اس دوران میں خپل کور فاؤنڈیشن طلبہ کے ’’اتنڑ‘‘ مظاہرے اور عنایت کے خوبصورت پشتو گیت سے شرکائے محفل خوب محظوظ ہوئے اور تالیوں کی شکل میں داد دی۔
پشتو کے مشہور شاعر اور قوم پرست راہنما جناب شمس بونیری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ادیب کبھی نہیں مرتا۔ لہٰذا بہ حیثیت شاعر اور ادیب میں کبھی نہیں مروں گا۔ خواہ کوئی کتنا مجھے مار دے۔ لہٰذا اونچے طبقے کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے عالموں، محققوں اور ادیبوں کے ساتھ بیٹھا کریں۔ شخصیات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ کوئی ہمیں پسند ہو یا نہ ہو، اپنی جگہ اُس کی اہمیت ہوتی ہے۔ تمام شاعر، ادیب، لالچ اور خود غرضی چھوڑ کر خلوص و محبت سے اکٹھے ہوکر بیٹھ جائیں۔ ہر سیاسی تحریک اور انقلاب میں ادیبوں کا اہم کردار رہا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ شمس بونیری نے بھی فضل خالق صاحب کو اُس کی نایاب کتاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔
گرلز کالج سیدوشریف کی پرنسپل نرگس آرا بیگم نے جو ’’پی ایچ ڈی‘‘ ہیں، کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اُسے اپنے مشاہدے کے اعتبار سے ایک قیمتی کتاب قرار دیا۔ انہوں نے کتاب کی فنی خاصیتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کتاب لکھنے پر فضل خالق صاحب کو مبارک باد دی۔
جناب فضل ربی راہی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فضل خالق صاحب کی ہر فن مولا شخصیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے فضل خالق صاحب کے صحافتی سفر کے ساتھ ساتھ سیاحتی شوق اور آثارِ قدیمہ تلاش کرنے کے کٹھن مراحل کا بھی ذکر کیا۔ انگریزی روزنامے ’’ایکسپریس ٹریبون‘‘ سے ہوتے ہوئے وہ اب مشہور انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سوات کی تاریخ چھے قبل مسیح بتائی۔ والیِ سوات کا دورِ حکومت ایک پُر امن اور روشن دور قرار دیا۔ انہوں نے کتاب کے مطالعے پر زور دیا۔ کتاب کی بناوٹ، معلوماتی مواد اور آثار قدیمہ کی خوبصورت تصاویر کا خصوصی ذکر کیا۔ راہیؔ صاحب نے کتاب لکھنے پر خوشی کا اظہار کیا اور اس کا اعتراف کیا کہ سوات میں آثارِ قدیمہ کے حوالے سے اس جیسا کسی اور نے کام نہیں کیا ہے۔ لہٰذا فضل خالق صاحب ایسی کاوش کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
خالقِ کتاب محترم فضل خالق صاحب نے تمام سامعین، قارئین اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ خپل کور فاؤنڈیشن سکول کا ہال دینے کے لیے ڈائریکٹر محمد علی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سوات کی تاریخی اہمیت پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں آرکیالوجسٹ نہیں ہوں، لیکن ضلع سوات کی مٹی کی محبت نے مجھ سے وہ کام بھی لیا جو میرا نہیں تھا۔ میں باہر دنیا کے لوگوں کی سوات سے محبت کے شان دار جذبے سے متاثر ہوا ہوں۔ ان کے بقول جو کچھ سوات میں ہے، وہ دنیا میں کہیں اور نہیں۔ دراصل میری کتاب سوات کے حسن، تاریخی اور قدیمی اثرات کا احاطہ کرہی نہیں سکتی۔ سوات کے بارے میں جو اُستاد جرمن، اٹلی، جاپان اور فرانس میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم اُن پر فخر تو کرسکتے ہیں، لیکن اُن کے جذبات اور کاوشوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
قارئین کرام! راقم الحروف نے بھی اس خوبصورت پروگرام میں شرکت کی جب کہ مشہور کالم نگار تصدیق اقبال بابو صاحب بھی ساتھ تھے۔ پروگرام میں عثمان اولس یار کے تاریخی حوالوں اور پشتو ٹپوں نے ایک خوبصورت سماں باندھ لیا تھا۔
’’ادھیانہ: سوات کی جنتِ گم گشتہ‘‘ ایک خوبصورت، تاریخی، سیاحتی اور آثارِ قدیمہ کی معلوماتی کتاب ہے، جس کو تحریر کرنے میں مصنف نے بے شمار تکالیف کا سامنا کیا ہے۔ کتاب نہایت دلچسپ ہے اور آسان زبان میں تحریر شدہ ہے۔ خوبصورت قیمتی تصاویر نے کتاب کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب ’’شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز‘‘ جی ٹی روڈ مینگورہ سوات سے ہر وقت مناسب قیمت پر دستیاب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب خرید کر آپ ہر گز پشیمان نہیں ہوں گے۔
میں دل کی گہرائیوں سے اس اَن مول کتاب لکھنے پر فضل خالق صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں اور ساتھ ہی ایک کامیاب پروگرام منعقد کرنے پر مبارک باد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک بھرپور کامیاب پروگرام تھا جس میں ہر شعبۂ زندگی کی قابل شخصیات نے شرکت کی۔ جناب شمس بونیری، عثمان اولس یار، پروفیسر عطاء الرحمان عطا، سردار زیب، حاجی زاہدخان، باچا خان سکول کی پرنسپل محترم مہناز صاحبہ، خپل کورفاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر محمد علی صاحب، پرنسپل گرلز کالج محترمہ نرگس آرا جیسی علمی شخصیات نے اس محفل کو وقار اور رونق بخشی۔
آخر میں مہمانوں کی پُرتکلف چائے سے تواضع کرنے کے بعد یہ یادگار پروگرام بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔