روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! پشتو زبان کی مظلومیت اور پشتون قوم پر جبر کے حوالے سے ادبی میدان میں بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے۔ بہت کچھ تو صرف مصنوعیت اور اپنے آپ کو دکھاوے کی حد تک محدود ہوتا ہے، لیکن بعض افراد اور اُن کی جدوجہد واقعی قابلِ تحسین اور قابلِ داد ہوتی ہے کہ وہ خلوصِ دل سے زبان اور قوم کی خدمت اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سٹیج پر بیٹھنے کے متمنی ہوتے ہیں، نہ ذاتی تشہیر اور نام و نمود کے خواہش مند۔ اس حوالے سے خوازہ خیلہ کے نئے پریس کلب میں پندرہ مارچ کو ’’غگ نیوز‘‘ کی طرف سے پشتو زبان کے بارے میں جو ایک تحقیقی سیمینار منعقد ہوا، وہ بلاشبہ اپنی معلوماتی، تحقیقی اور علمی معیار کے چوکھٹ میں لا جواب اور شاہکار سیمینار تھا۔ ’’غگ (آواز) نیوز‘‘ ایک چھوٹی سی ادبی تنظیم ہے جس کے کرتا دھرتا دو نوجوان شاعر، پشتو زبان و ادب سے شغف اور محبت رکھنے والے مراد یاسین اور مختار احمد مختارؔ ہیں۔ وہ خود تو ابھی کم سن ہیں، لیکن ان کے کارنامے بڑے بڑے ادیبوں سے بھی بلند و بالا ہیں۔ وہ نہ کسی پر احسان کرتے ہیں اور نہ کسی کے ممنون و مشکور ہیں۔ وہ صرف اور صرف پشتو زبان کی خدمت کرتے ہیں۔ اُن کے پروگرام نہایت سادہ مگر پر وقار اور سنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ تلاش اور تحقیق کرتے ہیں۔
15 مارچ کا یہ تحقیقی سیمینار اپنے اندر چار عدد تحقیقی اور علمی موضوعات سموئے ہوئے تھا۔ اس میں پہلا مقالہ ’’پشتو زبان اور پشتون تہذیب کے دوسری زبانوں اور تہذیبوں پر اثرات‘‘ کے حوالے سے تھا، جسے کیڈٹ کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیل نے سنانا تھا۔ دوسرا مقالہ ’’پشتو ٹپہ میں پختونولی‘‘ کے حوالے سے تھا جسے جہانزیب کالج کے پشتو کے پروفیسر، پی ایچ ڈی سکالر اور پشتو سانگہ کے انچارج جناب عطاء الرحمن عطاؔ صاحب کے حوالے کیا گیا تھا۔ عطاؔ صاحب پشتو نثر اور نظم دونوں میں یدِطولیٰ ہیں۔ تیسرا مقالہ ’’پشتو ادب میں متلونو کا حصہ ‘‘ کے موضوع پر تھا جسے درشخیلہ کی علمی اور ادبی و تاریخی شخصیت، مصنف، نیز طبقاتی جدوجہد پر یقین اور عمل کرنے والے محترم وکیل خیر الحکیم حکیم زئ نے پڑھنا تھا۔ چوتھا اور آخری مقالہ ’’پشتو اور پشتون‘‘ کے موضوع پر تھا۔ جتنا یہ موضوع اپنے آپ میں وسعت رکھتا ہے، اسی طرح اس مقالے کا پڑھنے والا بھی علم و تحقیق کا سمندر، سر چشمہ، منگلور کے مشہور مصنف، ادیب اور محقق جناب محمد پرویز شاہینؔ صاحب تھے۔ اس لحاظ سے یہ پروگرام جتنا وسیع تھا، اتنا سنجیدہ اور توجہ طلب بھی تھا۔ حمزہ کی خوش الہانی اور خوبصورت تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد اس پروگرام کے روحِ رواں مراد یاسین نے ’’غگ نیوز‘‘ کے اغراض و مقاصد مختصر طور پر بیان کیے کہ پشتو زبان کی ترویج، اہمیت اور خدمت کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ روایتی پشتو مشاعروں کے علاوہ پشتو ادب کے اور بھی بہت سے میدان ہیں، جن میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہم نے تلاش و جستجو اور تحقیق کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے ہم محمد پرویش شاہینؔ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے قدم قدم پر ہمارا ساتھ دیا۔ علاوہ ازیں خیر الحکیم حکیم زئ نے قیمتی مشوروں سے نوازا ۔ان لوگوں نے خود بھی کراچی سے لے کر سوات، دیر کے پہاڑوں اور چٹیل میدانوں تک پشتو زبان کی خدمت کے لیے اَن تھک جدوجہد کی ہے اور یہ جدوجہد نہ صرف قلمی اور تحقیقی ہے بلکہ علمی اور عملی بھی ہے۔ یہ سب شخصیات اپنی ذات میں ایک علمی درسگاہ ہیں۔
محمد طاہر بوستان خیل نے اپنے تحقیقی اور پُرمغز مقالے میں پشتو زبان کو ایک قدیم زبان قرار دیا کہ پشتو ہندوستان کی زبانوں کی ماں ہے۔ پشتو صرف زبان نہیں بلکہ ایک ضابطۂ حیات بھی ہے۔ پشتو زبان کے الفاظ ہندوستان کی تمام زبانوں میں رائج ہیں بلکہ آج تک مختلف تلفظ اور لہجوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کی رامپوری لہجے میں آج بھی پشتو زبان کے الفاظ مستعمل ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ اپنی زبان کو زندہ رکھیں۔ ہم سارے بیک آواز یہ مطالبہ کریں کہ پختونخوا کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پشتو زبان لازمی رکھیں اور نصاب میں شامل کریں۔ پشتو اکیڈمی آف سوات کی داغ بیل ڈالیں۔ انہوں نے پشتو زبان کے ادیبوں کا ذکر کیا جنہوں نے اُردو زبان میں نظم و نثر میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
پروفیسر، شاعر، ادیب اور پی ایچ ڈی سکالر جناب عطاء الرحمن عطاؔ صاحب نے ’’پشتو ٹپہ میں پشتونولی‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے پشتون تہذیب و ثقافت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ پشتو کلچر ایک زندہ کلچر ہے، یہ تہذیب و تمدن کے بغیر لکھے قانون و ضابطے ہیں، جنہیں ہر پختون سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ پشتو کا ہر ٹپہ اپنے سینے میں ایک داستان اور تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ پشتون قوم کے کلچر میں ٹپہ کا رنگ نمایاں ہے۔ حجرہ، گودر، اشر، غوبل، غیرت، ننگ، پت، پناہ اور مہمان نوازی پر بے پناہ خوبصورت ٹپے موجود ہیں۔ آخر میں عطاؔ صاحب نے چند ٹپے سناکر سامعین کے دل موہ لیے۔
ناصر ریشم نے فیض علی فیضؔ کی ایک خوبصورت غزل ترنم میں سنا کر سامعین سے بے پناہ داد وصول کی۔ محترم وکیل خیر الحکیم حکیم زئ نے ’’پشتو ادب میں متلونو کے حصے‘‘ پر اپنا مقالہ سنا کر مثل کے ہیئت و ترکیب پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مختلف مشہور ادیبوں کے مثل کے بارے میں تعریف و توضیح پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے ضرب الامثال کے پس پردہ اغراض و مقاصد بیان کیے اور بعض کا تاریخی پس منظر بھی بیان کیا۔ انہوں نے سامعین کی دلچسپی کے لیے بعض امثال مع پس منظر بھی بیان کیا۔
محمد پرویش شاہینؔ صاحب نے ’’پختو اور پختانہ‘‘ کے حوالے سے اپنی تقریر میں مختصر طور پر سامعین کو پشتو زبان اور پشتون قوم کی تاریخ سے آگاہ کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پشتون قوم کی روایات، رواج اور دستور آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ ’’حجرہ‘‘، ’’جمات‘‘، ’’گودر‘‘ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے پشتون نوجوان دورِ جدید کی ٹیکنالوجی (فیس بک وغیرہ) کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس کا مثبت اور تخلیقی استعمال کرتے ہی نہیں۔ انہیں اپنی تاریخ، آبا و اجداد کے کارناموں کی خبر نہیں۔ انہیں بس خوراک اور لباس کی فکر ہے۔ ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہم آج تک سوات کے حالات و واقعات پر اکٹھے ہوکر اور جرگہ بن کر نہیں بیٹھے، کہ غور و فکر کریں کہ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ کیوں کر ہوا اور کس نے کیا؟
پرویش شاہین صاحب کے سبق آموز اور تحقیقی اندازِ بیان سے سامعین بہت مستفید ہوئے۔ ان کے بعد خوازہ خیلہ کے مشہور شاعر، مصنف جناب سیراج الدین سیراجؔ نے مہمانوں کو خوش آمدید بھی کہا اور سب کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اُس کے چھوٹے بیٹے ارمان سیراجؔ نے اپنی خوبصورت آواز میں ترنم سے غزل سناکر حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی۔ ’’غگ نیوز‘‘ کی طرف سے تمام مقالہ نگاروں کو خوبصورت ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اس خوبصورت محفل میں راقم الحروف کے علاوہ کالم نگار تصدیق اقبال بابو، مشہور و معروف شاعر حنیف قیسؔ ، فضل معبود شاکرؔ ، فیض علی فیضؔ ، جہانزیب دلسوزؔ ، کرم مندوخیل، احسان یوسف زئ اور بھی ڈھیر ساری علمی اور ادبی شخصیات نے شرکت کرکے پروگرام کو چار چاند لگائے۔ حقیقت میں پشتو کے حوالے سے ایسے تحقیقی اور علمی پروگراموں کی بہت ضرورت ہے۔ ہم اپنی طرف سے مراد یاسین اور مختار احمد مختارؔ کو ایسے اچھے علمی پروگرام کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
قارئین، ان کے ساتھ ہمارا ہر وقت بھرپور تعاون رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تحقیقی سمینار
