فضل محمود روخان
جب سے ادارہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ وجود میں آیا ہے، تو شروع دن سے ہی گھریلو صارفین سے بلوں میں زیادہ پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ حساب کتاب والا جو کوئی نہیں۔ پوچھنے والا جو کوئی نہیں۔ اگر خدا نخواستہ گیس میٹر اپنی حالت میں کام کرنا چھوڑ دے، تو خراب میٹر پر بھی بل میں جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، لیکن صارف کو بتایا نہیں جاتا کہ یہ جرمانہ ہے۔ یہ جرمانہ ہزاروں میں ہوتا ہے ،جو صارف پر ایک طرح سے ظلم ہے۔ پہلے بھی سوئی گیس بِل، صارفین کی قوتِ برداشت سے زیادہ تھا۔ اب تو موجودہ حکومت نے 147 فی صد اس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر بجلی گرا دی۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گذشتہ چار پانچ سالوں سے گیس کمپنی نے اپنی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا اور وکالت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر یہ اضافہ نہ کیا جاتا، تو سوئی گیس کمپنیاں تباہ و برباد ہوجاتیں۔ یہ منطق اور استدلال صارفین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر گذشتہ ادا شدہ بلوں میں صارف کیٹگری ون کو کراس کرتے، تو اُن سے ڈبل بِل وصول کیا جاتا۔ اور اگر کوئی صارف ون یا ٹو کیٹگری کو کراس کرتا، تو اُن سے 600 روپے کے حساب سے سارے استعمال شدہ گیس کی قیمت وصول کی جاتی تھی۔ سوئی گیس کمپنی نے کبھی گھریلو صارفین کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔ سوئی گیس بلوں میں دکھاوے کے لیے شرح تو درج کی جاتی تھی، لیکن صارف کو بے رحمانہ طریقے سے لوٹ لیا جاتا تھا۔ پھر بھی پرسانِ حال کوئی نہ تھا۔ اب چوں کہ منسوخ شدہ شرح قابل عمل نہیں رہی لیکن پھر بھی میں اُس کو یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیٹیگری ون 110 روپے، کیٹیگری ٹو 220 روپے، کیٹیگری تھری 600 روپے، لیکن بِل میں صارف کو بتانے کے لیے کوئی وضاحت نہیں لکھی جاتی کہ کیٹیگری ون میں ہم نے یہ چارج کیا ہے۔ ٹو میں یہ رقم چارج ہوئی ہے اور بقایا استعمال شدہ گیس میں آپ سے 600 روپے کی حساب سے یہ رقم چارج ہوئی ہے۔
اس حوالہ سے سوئی گیس کمپنی کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر بل میں تفصیلاً درج کریں کہ بل میں مختلف شرح سے یہ رقم صارف سے چارج ہوئی ہے۔ تب بات بنے گی۔ جیسا کہ محکمۂ برقیات والے بل میں استعمال شدہ یونٹوں کو الگ الگ شرح سے لکھتے ہیں بلکہ محکمہ ٹیلی فون والے ایک ایک کال کی رقم الگ بل میں درج کرتے ہیں، لیکن سوئی گیس والے اتنی تکلیف گوارہ نہیں کرتے۔ پہلے تو حکومت کو سوئی گیس کے نرخ نہیں بڑھانے نہیں چاہیے تھے۔ اس کی بجائے گیس کے بڑے بڑے چوروں پر اگر ہاتھ ڈالا جاتا، تو اربوں روپے کی چوری شدہ گیس والے پکڑے جاتے، لیکن وہ بڑے بڑے صنعت کار ہیں اور وہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
مگر اب سوئی گیس کمپنی نے جو نئی شرح جاری کی ہے، یہ اب 1 سے 6 تک کیٹیگری پر مشتمل ہے، اور یہ شرح ستائیس ستمبر 2016ء سے لاگو کر دی گئی ہے۔ اس کی تفصیل ہر کوئی اپنے اپنے بلوں میں دیکھ سکتا ہے۔ یہ شرح چھے مختلف مدوں میں دکھائی گئی ہے۔ میں سوئی گیس کمپنی کا ایک گھریلو صارف ہوں۔ ستمبر 2018ء کا بِل 2470 روپے مجھے موصول ہوا ہے جو کہ میں نے ادا کر دیا ہے، لیکن بِل میں شرح کے مطابق کمپنی نے مجھے نہیں بتایا ہے کہ یہ پیسے کمپنی نے مجھ سے کس شرح کے مطابق وصول کیے ہیں۔ بس ٹوٹل اماؤنٹ درج ہوا ہے، جو کہ ظلم ہے۔ کمپنی کو بِل تیار کرتے وقت صارف سے کوئی بات چھپانی نہیں چاہیے۔ بِل میں شرح کے مطابق تفصیل درج کرنی چاہیے۔یہاں تک کہ اگر کسی صارف نے SLAB(6) تک گیس استعمال کیا ہو تو اُنہیں بھی یہ بتادیا جائے تاکہ کوئی سقم بل میں نہ رہے۔ واضح رہے کہ اب 6کیٹیگری کی قیمت 1460روپے فی DOMچارج کی جاتی ہے۔ کیا گھریلو صارف یہ برداشت کرسکے گا؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ سوئی نادرن گیس پائپ کمپنی کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ استعمال شدہ گیس کی رقم کو بِل میں شرح کے مطابق الگ الگ درج کرے، تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔ یوں صارف سے بل میں چوری سے رقم ہتھیانے کا احتمال باقی نہ رہے۔ نیز اگر گھریلو صارفین کے گیس میٹر میں قدرتی طور پر کوئی نقص پیدا ہوجائے، تو تبدیلی کے بعد صارف پر جرمانے کی رقم نہ لگایا جائے۔ واضح رہے کہ وہ بل میں لفظ جرمانہ نہیں لکھتے، مگر لکھتے ہیں کہ اگر کسی نے پوچھا، تو بتادیں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔