ابراہیم دیولئی
18 سا لہ مروان عتیق رضا خان کی ناقابل یقین، قابل فخر اور کامیاب کوشش نے مجھے آج مصروفیات کے باوجود ایک بار پھر قلم آزمائی پر مجبور کیا۔ بحیثیت ایک چھوٹا سا قلم کار بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے بمشکل صرف پڑھنے کے لیے وقت نکال کر خود کو حسبِ عادت حالات و واقعات سے باخبر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور جتنا بھی کرتا ہوں، تو نتیجتاً پریشانی میں اضافے کے علاوہ کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ پریشانی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جتنی بھی حکومتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، ان سب کو دیکھ کر ان میں کوسوں دور تک عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ دانستہ طور پر عوامی مشکلات میں مزید اضافے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بہرحال موجودہ سیاسی پالیسیوں کے پیشِ نظر ہم آگے جاکر کون سے مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے کہیں تفصیلاً آرٹیکل کے ذریعے اپنا مؤقف پیش کرکے قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کی کوشش کروں گا، مگر اب چوں کہ مروان خان کو اس اندھیری رات میں روشنی کی کرن محسوس کرتے ہوئے بے حد خوشی ہوئی۔ اس وجہ سے دل چاہتا ہے کہ ان کی اس کامیاب کوشش کو آپ کے سامنے رکھ کر امید کی اس کرن سے آپ کو بھی واقف کر سکوں۔
سب سے پہلے میں قابلِ احترام رضاخان صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نامور شخصیت نے خود دیولئی تشریف لا کر مجھے اس نایاب کتاب بلکہ دیگر کئی کتابوں کے تحفوں سے نوازا۔ اور ساتھ ہی مروان خان کی کتاب کی متوقع تقریب رونمائی میں شرکت کی باضابطہ دعوت بھی دے کر خلوصِ دل سے عزت افزائی بخشی۔
قارئین کرام! کنیڈا سے گریجویشن کرنے والا کمسن مروان خان سوات کے علاقہ ’’ابوہا‘‘ سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی، سیاسی شخصیت مختاررضا کا بیٹا جب کہ رضاخان صاحب کا پوتا ہے۔ اس کم عمر لڑکے کی لکھی گئی کتاب "A Decisive History of the 1965 Indo-Pakistan War” تحفے کے طور پر وصول کرکے وقتاً فوقتاً اس کتاب کے مختلف صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے میری حیرانی میں اضافہ بڑھتا جا رہا تھا۔ کیوں کہ اٹھارہ سالہ اس نوجوان نے پاکستان کے قیام میں درپیش مشکلات اور موجودہ مسائل کی وجوہات جس طریقے سے قلم بند کی ہیں، اسے دیکھ کر ہر باشعور انسان ان کے تحریر کردہ تاثرات کو موجودہ درپیش مسائل کے پیشِ نظر باآسانی سمجھ سکتا ہے۔
مروان خان اپنی کتاب میں صفحہ نمبر 15پر لکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں ہم جن مشکلات سے دوچار ہیں، وہ ذیادہ تر برطانیہ راج کے ہی پیدا کردہ مسائل ہیں جن کے خاتمے کے لیے آگے جا کر مزید سو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس کمسن رائیٹر کے ان تاثرات کو پڑھ کر مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ بحیثیت پختون قوم ہم آج بھی اپنی نئی نسل کی بہترین ذہن سازی اور ان کو بھرپور توجہ دینے کی صورت میں موجودہ مسائل سے نمٹ سکتے ہیں۔ کیوں کہ آج ہمارے حکمران یورپ اور امریکہ کی زیر سایہ غلامی کی زندگی سے نجات کیوں حاصل نہیں کرسکتے؟ اس کی وجوہات بھی اسی کتاب میں موجود ہیں۔
مروان خان اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ برصغیر کی غیرمنصفانہ تقسیم کے بعد برطانوی سامراج اپنے شطرنج پسند ماہرانہ ذہن سے اس خطے کے ممالک کے لیے ایسے مسائل چھوڑ کر چلے گئے، جس کا حل ایک طویل عرصے تک دکھائی نہیں دے رہا۔ مروان کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے میں بتاتا چلوں کہ تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ جب برطانوی سامراج یہ خطہ مجبوراً چھوڑ کر چلے گئے، تو انہوں نے بعد ازاں اس بات کا کھلے عام اظہار بھی کیا، کہ ہم نے برصغیر کو خیرباد کہتے وقت اس خطے میں رہنے والے پڑوسیوں کو زندگی بھر ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کے لیے چند ایسے فیصلے کیے ہیں جن کے ہوتے ہوئے یہ ممالک کوشش کے باوجود بھی اپنے تعلقات معمول پر نہیں لا سکیں گے۔
مروان کی کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سیالکوٹ کا شہر اور اس کے گرد و نواح بھارت کی تشدد پسندی سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ چوں کہ سیالکوٹ سیاسی اور جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بھارت کا اہم ٹارگٹ تھا،اس وجہ سے لکھاری نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 82 پر سیالکوٹ میں ہونے والی ملٹری سرگرمیوں اور چونڈا کی لڑائی کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔ سیالکوٹ کے علاوہ سندھ راجستھان پر ہونے والی لڑائی بہت ہی مختلف قسم کی تھی۔ لکھا گیا ہے کہ اس بیاباں میں ٹیکنالوجی کا نظام عمل میں نہیں لاجا سکتا تھا۔ یہاں پر آمدورفت کے لیے ملٹری ٹرک اور جیپ کی بجائے اونٹوں سے کام لیا جاتا تھا۔ کیوں کہ اونٹ اس صحرا میں کہیں بھی آسانی سے جا سکتے تھے اور دورانِ سفر راستے معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی مدد لینی پڑتی تھی۔ صحرا میں زندہ رہنے کی قابلیت اور دوسرے روایتی طریقے ہی یہاں جنگ جیتنے کے یے اہم تھے۔
قارئین، جنگِ آزادی کے دوران میں اور آزادی کے وقت سے لے کر تاحال ہمیں جن مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس حوالے سے تاریخ کے مختلف اَوراق کے ذریعے ہمیں پہلے سے ہی بہت حد تک آگاہی حاصل ہے، لیکن یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر بلکہ قابلِ فخر ہے کہ مروان خان نے اتنی کم عمر میں انگریزی زبان کے ذریعے حقائق کو جس تفصیل کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنایا، اس سے بہت سے انگریز وں کو اپنے تاریخی آقاؤں کے ظلم و ستم اور ناانصافی سے واقف ہونے میں مدد مل سکے گی۔ دوسری بات یہ کہ اتنی کم عمری میں جنگِ آزادی اور آزادی کے بعد درپیش مسائل کے حوالے سے تاریخی حقائق کی جڑ تک پہنچنا اور انہیں حقائق کو دنیا تک پہنچانا بحیثیتِ پختون ہمارے لیے اور سب سے بڑھ کر مروان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ کیوں کہ ہر دور میں موجود مسائل سے باآسانی نمٹنے کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم تاریخ سے پوری طرح واقف ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کتاب کی تاریخی اہمیت کو دیکھ کر میں اس کالم کے توسط سے یہ تجویذ بھی پیش کرنا انتہائی اہم سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو اگر اُردو اور پشتو زبانوں میں ترجمہ کیا جائے، تو اسی صورت مروان خان کی اس کوشش سے بہت سارے لوگ مستفید ہو جائیں گے۔
آخر میں جاتے جاتے مروان خان اور ان جیسے بہت سے نوجوانوں کو صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنے اس کامیاب سفر کے دوران میں کسی سے کچھ امیدیں وابستہ رکھناآپ کی ناکامی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کیوں کہ ہم ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جہاں پر اپنی مددآپ کے تحت زندگی گزارنے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اپنے ٹیلنٹ کو بروئے کار لانے کے لیے کسی کے سہارے کا انتظار کیے بغیر اپنے لیے ایسے وسائل کی فراہمی کی ازحد کوشش کرتے رہیں، جن سے آپ کا تخلیقی ذہن معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکے۔ کیوں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی دورِ حکومت نے نئی نسل کے ٹیلنٹ کو بروئے کار لانے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش تک نہیں کی، لیکن اس کے باوجود میں آپ کو پوری یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ جیسے نوجوانوں کی مثبت کوششیں رنگ ضرور لائیں گی۔
کیوں کہ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی مثبت کوشش کو کسی بھی صورت رائیگاں جانے نہیں دیتا۔