مہروز خان عیسیٰ خیل
مثبت اور منفی رویوں پر بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ رویہ آخر ہوتا کیا ہے؟
رویے کا تعلق نفسیات سے ہے اور نفسیات میں انسانی رویوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ علمِ نفسیات کے مطابق رویے سے مراد انسان کی شخصیت کا ایک ایسا گہرا اور سیکھا ہوا عنصر ہے، جو خاص طور پر سوچنے، محسوس کرنے اورکسی عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ گویا انسان کسی چیز کے بارے میں جو سوچتا ہے، محسوس کرتا ہے اور کسی عمل کرنے پر آمادہ ہوتا ہے، تو یہ اس کارویہ کہلاتا ہے۔
انسان فطری طور پر رویہ اپنے ساتھ لے کر دنیا میں نہیں آتا بلکہ یہاں رہ کراپنے ارد گرد کے ماحول سے رویہ اپناتا ہے۔ اب یہ انسان کے نصیب کی بات ہوتی ہے کہ اُسے کس قسم کا ماحول ملتا ہے؟ یعنی اگر اچھا ماحول ملتا ہے، تو چیزوں کے بارے میں اس کا رویہ مثبت ہوگا اور اچھا ماحول نہیں ملتا، تو منفی ہوگا۔ اس طرح والدین کے رویوں کے اثرات براہِ راست بچوں پر پڑتے ہیں اور بچے شعوری اور لاشعوری طور پران رویوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر والدین کا رویہ کسی چیز کے متعلق مثبت ہوگا،تواُن کے بچوں کا رویہ بھی مثبت ہوگا۔
موجودہ دور میں لوگوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر کے رویے منفی ہیں۔ اکثر و بیشتر لوگ منفی سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اس منفی سوچ اور رویے کی وجہ سے دوسروں کی کامیابیاں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھی تو نوبت حسد اور جلن تک پہنچ جاتی ہے۔ اگرکوئی شخص ہمیں اپنی کسی کامیابی کے بارے میں کہتا ہے، تو ہم ظاہری طور پر اس کادل رکھنے کے لیے اپنی خوشی کااظہار کرلیتے ہیں، لیکن باطنی طور پر جلن محسوس کرتے ہیں۔ یہیں سے ہمارے رویے جنم لیتے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں جب کوئی فرد کوئی نیا کام یا کوئی نیاکاروبار وغیرہ شروع کرنے کے ارادے سے کسی سے مشورہ بھی طلب کرتا ہے، تو مشورہ دینے والا بجائے حوصلہ افزائی کے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اپنی زندگی کے تلخ تجربات بیان کرکے اُسے آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔
یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ دو سگے بھائیوں او ردو بہترین دوستوں میں بھی حسد اور جلن کا عنصر پایا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اگر کوئی فرد اپنے رویے کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ وہ پانی کے آدھے بھرے گلاس پر نظر ڈالے۔ اگر وہ گلاس کے خالی حصے پر نظر ڈالتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ پانی کا یہ گلاس آدھا خالی ہے، تو یہ منفی سوچ اور رویے کی عکاسی کرتا ہے اور اگر آدھے بھرے گلاس پر نظر ڈالتا ہے اور یہ سوچنا ہے کہ اس گلاس میں آدھے حصے تک پانی ہے، تو یہ مثبت سوچ اور رویے کی نشانی ہے۔
ہم میں سے ڈھیر سارے ایسے ہیں جو اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اس سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ جو وہ سوچتے ہیں وہ صحیح ہے اور ان کا کسی چیز کے بارے میں نقطۂ نگاہ درست ہے۔ اس خام خیالی سے ہمیں نکلنا ہوگا۔ کیوں کہ منفی رویے اپنے نقصان کے ساتھ ساتھ دوسروں کے نقصان کا بھی سبب بنتے ہیں۔ یہ بات ایک اور مثال کے ساتھ اس طرح سمجھائی جاسکتی ہے کہ ایک مرتبہ سقراط حکیم کو کسی نے گالی بکی۔ بجائے غصہ ہونے کے سقراط حکیم نے ہنسنا شروع کر دیا۔ کسی نے اُن سے کہا کہ آپ گالی سن کر بھی ہنس رہے ہیں، تو سقراط حکیم نے وضاحت کی کہ ’’جو گالی یہ دے رہا ہے وہ درست نہیں۔‘‘ اب پل بھر کے لیے سوچیں کہ خدانخواستہ اگر کوئی ہمیں گالی دیتا ہے، تو گالی سننے کے بعد ہم اس کا کیا حشر کردیتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سقراط حکیم کا رویہ اور سوچ کتنی مثبت تھی۔ بات وہی پر ختم ہوگئی۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی ہمارا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ کیوں کہ رویے ہماری اچھی اور بری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
قارئین، آج ہی سے اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرنا شروع کیجیے اور اپنے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیجیے۔ کیوں کہ اس کے لیے زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی۔ صرف چیزوں کے بارے میں سوچ تبدیل کرناپڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ادارے میں کسی فرد پر تنقید کا عمل شروع ہوجائے، تو اس تنقید کے بارے میں منفی رویہ یہ ہوگا کہ ادارے کا باس یا لوگ اسے ادارے میں برداشت نہیں کرنا چاہتا، جب کہ اس تنقید کے بارے میں مثبت رویہ یہ ہوگا کہ سوچا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کی صلاحیتیں کسی اور جگہ آزمانا چاہتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی طالب علم یا کوئی امیدوار روزگار کی تلاش میں کسی خاص جگہ اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہے، اور اُسے کامیابی نہیں مل رہی ہے تو رنجیدہ اور نااُمید ہونے کے بجائے اُسے اپنی قسمت کسی اور جگہ آزمانی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی صلاحیتیں کسی اور جگہ زیادہ کار آمد ہوں۔ اسی طرح اگر کسی کاروبار کے آغاز میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہو، تو بجائے خاطر آزردہ ہونے کے صبر و استقامت اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ کیوں کہ بڑی کامیابی کے لیے بڑی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح ہمیں چاہیے کہ چیزوں کی اچھائی پر نظر ڈالیں اور برائیاں نظر انداز کریں۔ کیوں کہ کسی چیز کی برائی پر نظر ڈالنے کے بعد اچھائیاں نظر نہیں آتیں اور اچھی پر نظر ڈالنے کے بعد برائیاں نظر نہیں آتیں۔ یہاں پر مجھے ایک خوبصورت بات یاد آرہی ہے جس میں کسی دانش مند نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب ہم کسی شخص کے بارے میں اچھا سوچتے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ سامنے والا شخص اچھا ہو، لیکن اس کے ساتھ ہماری سوچ بھی تو اچھی ہے،جو لوگوں میں اچھائی تلاش کرتی ہے۔ اس طرح اگر ہم کسی کے بارے میں برا سوچتے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ سامنے والا شخص برا ہو، لیکن اس کے ساتھ ہماری سوچ بھی تو بری ہوتی ہے، جو برائی تلاش کرتی ہے۔‘‘
ہمیں اپنی سوچ مثبت رکھنی چاہیے۔ ہم اپنے ملک کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کے منفی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں بد عنوانی، ناجائز منافع خوری، رشوت، عدم مساوات، دوسروں کی حق تلفی، ذاتی مفادات اور اس قسم کی نہ جانے کتنی برائیاں نظر آئیں گی۔ اب اگر ہم اپنے ملک کے مثبت پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہماری سوچ اور رویہ خودبہ خود مثبت ہو جائے گا۔ مثلاً اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، یہ الحمد اللہ ایک مسلمان ملک ہے جو کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر آزادہوا ہے۔ عالمی دنیا میں ساتواں اور اسلامی دنیا میں پہلا ایٹمی قوت ہے۔ اس ملک میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ صرف دریائے سندھ کی لمبائی 2900 کلومیٹر ہے۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ اس ملک میں ہرقسم کے میوہ جات اور فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس ملک میں لوگ چار موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں معدنی ذخائر ہیں۔ ہماری افرادی قوت زیادہ ہے۔ ہماری آبادی میں اکثریت نوجوان کی ہے۔ یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ نہ جانے کتنی اور خوبیاں ہیں جن کا احاطہ شاید میں اس چھوٹے سے مضمون میں نہ کرسکوں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا منفی رویہ چیزوں کے بارے میں بدل دیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا، تو ہماری زندگی بدلے گی اور یہ تبدیلی ہماری کامیابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوگی، اِن شاء اللہ!