غوث علی خان
آج کل ہمارا مقبول پھل شفتالو ہے۔ میں اس حوالے سے مثال دوں گا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ شفتالو کا کاشتکار کوشش کرتا ہے کہ اس کے پودے صحت مند ہوں، تاکہ اچھا پھل دے سکیں۔ اس واسطے پودوں کی مناسب شاخ تراشی ہوتی ہے۔ ہر شاخ کو ایک خاص سمت میں لے جانا ہوتا ہے۔ تاکہ پودا مناسب بڑھوتری کے ساتھ بہترین پھل دے سکے۔ یہ زمین دار پر منحصر ہے کہ وہ ایک پودے سے بڑے سائز کا پھل حاصل کرتا ہے، یا چھوٹے سائز کا۔ اپنا یہ مقاصد پورا کرنے کے لیے وہ مناسب اقدامات کرتا ہے۔سب کچھ قدرت پر نہیں چھوڑتا۔
ٹھیک اسی طرح ایک قوم کو بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے مناسب اقدام کرنا ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم قدم تعلیمی نظام میں بہتری لانا ہے،جس کے ذریعے کسی بھی قوم سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پھر قوم کو جس راستے پر لگانا ہو، اس ہتھیار (تعلیم) کے ذریعے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا اثر دھیرے دھیرے لیکن پائیدار ہوتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، اپنی اقدار کی کمزوری کی ایک اور مثال عرض کروں گا۔ جب ہم بچے تھے، توکسی کو خوش آمدید کہنے کا طریقہ یہ تھا کہ تین بار آپ کو مہمان سے معانقہ کرنا ہوتا تھا۔ پھر ایک نئی روش چل پڑی اور وہ یہ کہ اب آپ کو صرف ایک بار معانقہ کرنا پڑتا ہے۔ اس انداز کو ہمارے گاؤں میں ’’کالجی انداز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمیں تو یہ انداز مل گیا، لیکن جن کو پرانا انداز ملا تھا، وہ اس نئے انداز کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آج پرانا انداز کہیں بھی نہ ملے گا۔ اس لیے کہ اس نئے انداز کو پروموٹ کرنا تھا۔ لہٰذا اسے قبولیت حاصل ہوئی، لیکن اس کے مقابلے میں برائیوں کے خاتمے پر زور نہیں دیا گیا اور جو برائیاں برملا ہم کرتے ہیں اس پر شرمندگی کا مکمل سامان فراہم نہیں ہوا ہے۔ پہلے بھی ہم اپنے گناہوں پر فخر کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔
قارئین، دراصل بات صرف اختیار کی ہے، جہاں میرا بس چلتا ہے، وہاں میں کوئی بھی گناہ کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ ہاں، اتنا ہے کہ جہاں میرا بس نہیں چلتا، وہاں میں خوب مسلمان اور نیک بندہ ہوں۔
قارئین، ایک اچھے سے ڈاکٹر کے پاس جاکر دیکھیں، اس کا اٹینڈنٹ ڈاکٹر کے معیار کو مؤثر رکھ سکتا ہے، مگر اٹینڈنٹ کو اپنی تنخواہ اور دنیا داری سے کام ہوتا ہے، اس لیے وہ بھی مٹی پاؤ والی روش اپنائے ہوئے ہوتا ہے۔
ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم نہ صرف برائی کو سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ اب انجینئر طبقہ ہی کو لے لیں جو ’’اٹھارہ فی صد‘‘ کو شیرِ مادر سمجھتے ہیں۔ اس سے اوپر کے لیے مزید لے دے ہوتی ہے۔ دوسری طرف سیاسی مداریوں کا کام قومی دولت کو تحفظ دینا ہوتا ہے، لیکن وہ بھی چوروں کے آگے سرینڈر ہوجاتے ہیں اور اپنا حصہ بھی بے باق کرنے میں عافیت جانتے ہیں۔ قومی دولت کی بندر بانٹ کے بعد جب سکیموں پرنام کی تختی لگاتے ہیں، تو پھر بھی ہم حاضر ہوتے ہیں اور لیڈر کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ ان چوروں سے ملے ہوئے مداریوں کو خوش کرنے کے لیے تالیاں بجاکر عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
قارئین، ایک چرواہا اپنے بھیڑ بکریوں کو کسی چراہگاہ میں لے جاتا ہے یا کسی راستے سے گزرتا ہے، تو یہ چرواہے کا کام ہے کہ بھیڑ بکریوں کو کس طرح ڈیل کرنا ہے۔ اگر بھیڑ بکریاں یہ کہیں کہ ہم اپنے حکم اور ارادے سے بخیر و عافیت چر کر واپس گھر آگئے ہیں، تو ایسے موقع پر کیا کہیں گے؟
اس طرح ہمارے مختلف مکاتبِ فکر اور درس گاہوں کا نظام ہے۔۔ چاہے وہ رسمی ہوں یا غیر رسمی۔ چاہے انہیں جیسا بھی نام دیا جائے، انگریزی یا دینی، فنی یا غیر فنی یا کوئی اور، ہلانے والی ڈور کا مرکز ایک ہوتا ہے جسے ہم محسوس نہیں کرسکتے، لیکن اقبال نے اس کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا تھا:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اگر چہ اقبالؔ نے یہ شعر اپنے وقت کے لیے کہا تھا لیکن اسے آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے، اقبالؔ اگر زندہ ہوتے، تو مزید شدت سے اس کا اظہار کرتے۔ کیوں کہ ہم آج بھی اس مقام سے آگے نہیں بلکہ بہت پیچھے ہی کھڑے ہیں۔ آج اگر اقبالؔ زندہ ہوتے، تو خون کے آنسو روتے۔ کیوں کہ اس کے دور کے ذمہ دار سمندر پار سے آئے تھے اوران کے زیادہ تر اعمال اپنے عارضی وجود کی بقا کے لیے تھے، لیکن آج کے ذمہ دار ہمارے اپنے ہیں۔ لہٰذا زبان پر یہ آتا ہے کہ
جو درد ملا اپنوں سے ملا
غیروں سے شکایت کون کرے
اور اپنوں نے اتنے گناہ کر ڈالے ہیں کہ وہ اپنا آخری ٹھکانا بھی یہاں نہیں چاہتے بلکہ کہیں اور دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ ان پر بعد از مرگ سنگ باری نہ ہو۔
بس اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!