ایڈووکیٹ نصیراللہ خان
حکومتِ پاکستان نے حاجی زاہد خان کو تمغائے شجاعت دینے کا اعلان کیا ہے۔ 23 مارچ 2019ء کوپریزیڈنٹ ہاؤس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی 127 افراد بشمول 18 غیر ملکیوں کو سول تمغے دیں گے۔ غالباً پورے خیبر پختونخوا میں صرف ایک شخصیت کو تمغا سے نوازا جا رہا ہے جو کہ حاجی صاحب کے حصہ میں آیا ہے۔
یوں تو الحاج زاہد خان کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ تاہم مَیں سمجھتا ہوں کہ حاجی صاحب سماجی اور معاشرتی فعالیت کے حوالہ سے ایک تاریخ ساز شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ البتہ اس مختصر سے مضمون میں ان کی شخصیت کا بھرپور احاطہ کرنا ناممکن ہے، لیکن چلیں، یوں ان کا تھوڑا سا تعارف ہوجائے گا اور ان کی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا جائے گا۔
حاجی زاہد خان نے مینگورہ سوات میں حاجی قاسم جان مرحوم کے گھر جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم مینگورہ میں حاصل کی اور بعد ازاں بی اے گورنمنٹ جہانزیب کالج سے کیا۔ اس طرح کراچی سے سنہ 1992ء میں ایل ایل بی کیا۔ کالج کے زمانے ہی سے سیاست میں فعال کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ حاجی صاحب کی سیاسی وابستگی روزِ اول سے اے این پی کے ساتھ ہے۔ اس لیے کبھی اپنے نظریہ پر کمپرمائز نہیں کیا۔ الغرض، پختون مسلمان ہونے کے ناتے سیاسی نظریات میں باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد، خدائی خدمتگار اورامن کے علمبردار بن کر جد و جہد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر یوں کہہ لیں کہ عمل، اور کردار کے غازی ہیں، توکچھ مضائقہ نہیں۔ ان کی شخصیت ان کے کردار کی آئینہ دار ہے۔ پختون قومی وحدت اور خدمتِ خلق پر یقین رکھتے ہیں۔ پختون کلچر، حجرہ اور جرگے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ رواج، ’’دود‘‘ اور دستور کی پاس داری کرتے ہیں۔
حاجی صاحب نے حالیہ دہشت گردی میں پختونوں کے مسائل پرصفِ اوّل کے ’’مبارز‘‘ کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ چاہے وہ عام حالات ہوں یا خاص، حاجی صاحب کے صاف کردار اور فعالیت کا زمانہ گواہ ہے۔ زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا طالبانائزیشن کے کشیدہ حالات، ہر وقت ظلم اور جبر کے خلاف سینہ تان کر کھڑے دکھائی دیے۔ تقریباً ہر ایک مسئلہ پر سول انتظامیہ کے ساتھ مختلف امور میں مشاورت کی اور اس کے بعض فیصلوں کے خلاف اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ میرا نہیں خیال کہ سوات کے عوام کا کوئی ایسا مسئلہ ہوگا جس پر حاجی صاحب نہیں اٹھے ہوں گے۔ سنہ 2009ء میں جب ہر جگہ خوف، غیر یقینی صورتحال اور بے چینی کے اثرات نے سواتی عوام کو اپنے گھروں تک محصور کرلیا تھا، ان حالات میں دہشت گردوں کی طرف سے حاجی صاحب پر حملے بھی ہوچکے تھے۔ ملا ریڈیو اور شاہ دوران نے ایف ایم ریڈیوپران کو قتل کرنے کے احکام صادر کیے۔ اس کے باوجود بھی حاجی صاحب اس وحشت ناک ماحول میں جہاں سرکاری ادارے بھی اپنی ڈیوٹی بمشکل سرانجام دے رہے تھے، اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ طالبانائزیشن کے خلاف سینہ سپر ہو کر مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے رہے۔ 
حاجی صاحب بطورِ ایک ذمہ دار شہری کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے تھے اوراس طرح ممبر قومی جرگہ، نائب صدرگلوبل پیس کونسل اور ہوٹل ایسوسی کے صدر کے طورپراپنے رفقا کے ساتھ انتظامیہ کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے اور دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ اینڈ فوکسڈ آپریشن کی بات کرتے۔ بہرحال وہ وقت ایسا تھا کہ بڑے بڑوں کو بھی بات کرنے کی مجال نہیں تھی۔ یہاں تک کہ بے زاری اور بے بسی کی حالت میں مجبوراً سواتی عوام کو ضلع بدر کیا گیا۔ سواتی عوام کی تاریخی وحدت، قربانی اور اکھٹے دوسرے ضلعوں میں کوچ کرنا اور بعد ازاں مردان، چارسدہ، درگئی اور پشاور وغیرہ کے لوگوں کا سواتی عوام کے لیے اپنے گھروں کو خالی کرنے کا عمل تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔
حالات میں بہتری کے بعد سیاحت کی بحالی میں ان کا کردار اور خدمت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ہوٹل مالکان کے لیے دن رات ایک کرکے خدمات سر انجام دیں۔ اس مد میں ان کی کوششوں سے ’’یو ایس ایڈ‘‘، ’’سمیڈا‘‘ سے لاکھوں ڈالر کا امداد تمام سوات کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ کو دلوایا۔ سیاحت کے بارے میں ایک کتاب ’’سوات اور سیاحت‘‘ بھی شائع کی۔ان کی اَن تھک کوششوں سے ہوٹل ایسوسی ایشن مضبوط اور فعال ایسوسی ایشن بنا اور آج سوات کا ہر ہوٹل مالک ملکی ترقی میں کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے امن فیسٹول کروائے۔ سیاحوں کو کالام اور سوات کے دوسرے ہوٹلوں میں مفت کمرے دلوائے۔ آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر ہوتے ہوئے کشیدہ حالات میں دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ جرگے بلائے۔ ایڈمنسٹریشن کے ہمراہ اپنے رفقا کو لے کر مذاکرات کیے اور ان کو لمحہ بہ لمحہ اپنے خدشات اور سوات کے امن کے حوالے سے آگاہ کرتے رہے۔ سوات کے سول ایڈ منسٹریشن، گھروالوں اور اپنے رفقا کے پُرزور اصرار پرایک عرصہ سوات سے دور رہے، تاہم ان کی سیاسی اور عوامی خدمت کا سلسلہ نہیں رُکا۔ پشاور میں کئی ایک جرگے بلائے اور دہشت گردوں کے خلاف تحریک کو متحرک کیا۔ دراصل یہ دور حاجی صاحب کے لیے انتہائی پریشانی کا دور تھا ۔
حاجی صاحب نے سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر ہمیشہ اپنے عوام کے مفادات کا خیال رکھا۔ اس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں انہیں سر پر گولی لگی اور مشکل سے واپس زندگی کی طرف لوٹ آئے۔دورانِ علاج حاجی صاحب مہینوں پشاور ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ بس موصوف معجزاتی پر بچ گئے۔ ان واقعات کے بعد بھی حاجی صاحب کے عزم میں کمی کی بجائے تیزی دیکھنے میں آئی۔ پبلک سیفٹی کمیشن کی فعالیت ہو، یا قومی امن جرگے کا پلیٹ فارم، امن کے پرچار اور سوات کے عوام کے لیے مستقل طور پر آپ کی کوششوں کی ایک دنیا معترف ہے ۔ 
حاجی زاہد خان کو تمغائے شجاعت دینا حکومت کے لیے بھی یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ جس طرح سوات کی کشیدہ صورتحال کے دوران میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر ضلعی انتظامیہ بشمول گورنر خیبر پختونخوا، وزیر اعلیٰ اور صدر پاکستان سے امن کے سلسلے میں ملاقاتیں کیں۔ سوات نیوز کو ایک انٹرویو کے دوران میں آپ نے مذکورہ سول تمغا کو سواتی عوام کے نام کیا اور کہا کہ پختون وطن اور سواتی عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ان کی کوششیں بد ستور جاری رہیں گی اور کہا کہ ’’اسی طرح اپنی خدمات سر انجام دیتا رہوں گا۔‘‘
حاجی صاحب نے آخر میں سواتی عوام کی قربانی کو سلام پیش کیا۔