ڈاکٹر ہمایون ھما

پشتو اس وقت پاکستان میں پنجابی کے بعد دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ 2017ء کے سروے کے مطابق پنجابی بولنے والوں کی تعداد 80.5 ملین تھی اور پشتو 37.9 ملین افراد بولتے تھے۔ تیسرے نمبر پر 30.3 ملین لوگ سندھی بولتے ہیں اور بلوچی 6.3 ملین افراد کی زبان ہے۔ اردو جسے وطن عزیز میں قومی زبان کا درجہ حاصل ہے اس میں صرف 14.7ملین افراد گفتگو کرتے ہیں۔ ہم ملک کی کسی زبان کے خلاف نہیں۔ چاہتے ہیں سب پھلیں پھولیں اور انہیں جائز مقام دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہم صرف پشتو کے بارے میں بات کریں گے۔

پشتو کتنی پرانی زبان ہے اور یہ دنیا میں کب سے بولی جا رہی ہے ہم اس پر بحث کرنے کی بجائے صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس وقت پشتو کن حالات سے دوچار ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں باوجود اس کے‘ اسے کوئی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے آج بھی زندہ ہے۔ ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ پشتو ماضی میں بھی پشتون قلمکاروں کی وجہ سے زندہ رہی اور آج بھی انہیں لوگوں نے اسے زندہ رکھا ہے۔ یہ لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں، اپنے اخراجات پر اسے چھاپتے ہیں اور پھر انہیں دوستوں میں مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔ ہمارے دوست گل محمد بیتاب، جنہیں ہماری طرح سال میں دو ایک کتابیں چھاپنے کا جنون ہے، ہمیں بتا رہے تھے کہ ہر سال مختلف موضوعات پر پشتو کی کم و بیش ڈیڑھ ہزار کتابیں چھپ رہی ہیں اور یہ سب کتابیں پشتو کے قلمکار اپنے خرچ پر چھاپتے ہیں۔ اور یہ آج کل کی بات نہیں۔

پشتو کے تمام قلمکار، جن میں امیر حمزہ خان شنواری، سمندرخان سمندر، سید رسول رسا، بہادر شاہ ظفرکاکاخیل، دوست محمد خان کامل، فضل حق شیدا اور قلندر مومند شامل ہیں، اپنی تصنیفات اپنے خرچ پر چھاپتے رہے۔ یا پھر اگر کسی پبلشر نے بھی شائع کی ہیں تو انہیں ان کا معاوضہ دینے کی بجائے چند کتابیں ہی پیش کی گئی ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ان بڑے لکھنے والوں کی کتابوں کا کوئی دوسرا ایڈیشن نہیں چھپا۔

پشاور کے ایک نامی گرامی پبلشر یونیورسٹی بک ایجنسی کے مالک ہمیں بتا رہے تھے کہ دوست محمد خان کامل کی مشہور زمانہ تحقیقی کتاب ’’تاریخ مرصع‘‘ پچاس سال پہلے شائع ہوئی تھی لیکن اس کا پہلا ایڈیشن آج بھی دیمکوں کی ضیافت طبع کے لئے ہمارے گودام میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ تاریخ مرصع خوشحال خان خٹک کے پوتے افضل خان کی تالیف ہے جسے دوست محمد خان نے دو، تین قلمی نسخوںسے مرتب کیا اور اس پر چار پانچ سو صفحات کے حواشی اور تعلیقات لکھ کر شائع کی۔ اسی طرح حافظ محدم ادریس کی تفسیر ’کشاف القران‘ کا پہلا ایڈیشن بھی اس بک سیلر کے پاس موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کتابوں کے پہلے ایڈیشن ختم ہونے پر ان بڑے لوگوں کے نام بھی قصہ پارینہ بن جائیں گے

۔ ظاہر ہے کہ جو زبان پاکستان کی دوسری بڑی زبان ہونے کے باوجود نہ نصابی زبان کے طور پر تسلیم کی گئی ہے نہ اسے دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے، اُسے سیکھنے یا پڑھنے سے کسی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مالی فوائد کی بات آئی تو ہم بتاتے چلیں کہ ہم 35 سال تک سرکاری کالجوں میں اردو پڑھاتے رہے ہیں کہ یہی ہمارے حصول رزق کا وسیلہ تھا۔ اردو میں ایم فل کیا، مالی فوائد سے محروم رہے کہ میں جس گریڈ میں تھا ضابطے کے تحت مجھے مالی فوائد دینا ممکن نہ تھا۔ پشتو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تو وہ بھی ’’درمسال میں خٹے‘‘ ثابت ہوگئی۔ ایک بار پھر ملازمت کے ضابطے حائل ہوگئے۔ جب ہم نے پی ایچ ڈی الاؤنس کے لئے درخواست دی تو ہم سے باقاعدہ جواب طلبی ہوئی، پوچھا گیا کہ اردو کے استاد ہوتے ہوئے تم نے پشتو میں پی ایچ ڈی کیوں کی۔ ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے، حضور یہ گناہ ہم سے ناسمجھی میں سرزد ہوگیا ہے۔ اب تلافی ممکن نہیں۔ اب اپنی اولاد کو بھی یہ نصیحت بلکہ وصیت ضرور کریں گے کہ بیٹا جہالت پر گزارہ کرو، علم حاصل کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھنا ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بتانا صرف یہ مقصود تھا کہ پشتو صرف ہمارے لئے نہیں،

امیر حمزہ خان شنواری، سمندر خان سمندر اور سید رسول رسا جیسے بڑے ادیبوں کے لئے بھی ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قلندر مومند جیسے نامور قلمکار بھی چار مرلے کے کرائے کے مکان میں زندگی بسر کرتے رہے او ر وہاں سے ہی ان کا جنازہ اُٹھا۔ ایوب صابر اور مہدی شاہ باچا جن مکانات میں رہتے تھے، وہ مکان کم اور لحد سے زیادہ مشابہ تھے۔ امیر حمزہ خان شنواری کی مالی حالت کا اندازہ لگائیں تو طاہر آفریدی کی کتاب ’’گوتی قلم تہ پہ جڑا شوے‘‘ ضرور پڑھیں۔ یہ طاہر آفریدی کے نام لکھے گئے امیر حمزہ خان شنواری کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ ان خطوط میں ہمارے اس عظیم شاعر نے یا تو اپنی بیماریوں کا ذکرکیا ہے یا پھر دس یا بیس روپے مالی امداد کی وصولی پر تشکر کا اظہار ہے۔ سمندر خان سمندر جب ریڈیو میں 40 سال ملازمت کے بعد اپنے گاؤں بدرشی آئے تو ڈیڑھ مرلے کے ایک کچے مکان میں زندگی بسر کرتے رہے۔ اس میں صرف ایک کمرہ تھا، ایک طرف کتابوں کے ڈھیر زمین پر پڑے ہوتے، دوسری جانب دیوار کے ساتھ ان کی ٹوٹی ہوئی چارپائی لگی تھی۔ جی ہاں! یہ وہ سمندر ہیں جن کا شمار ریڈیو ڈرامے کے بنیادگروں میں ہوتا ہے۔ اپنے وقت کے بہترین صداکار تھے۔ چالیس سال تک ’’د دوستانو خبرے اترے‘‘ لکھتے رہے۔ پائندہ خان، گلامد خان، توکل خان، شاہ پسند کے نام سے کرداروں نے ان کے پروگرام سے شہرت پائی۔ ’’د ایلم سوکہ ‘‘ علامہ اقبال کے مشہور مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ کے علاوہ دیگر بے شمار کتابوں کے مصنف نے صرف کلمہ طیبہ کی توضیح و تشریح میں پانچ ہزار اشعار لکھے جس کا مسودہ پشتو اکادمی میں محفوظ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگوں کو بدرشی کے قبرستان میں ان کے مزار کا بھی علم نہ ہوگا۔ کیونکہ سرکار نے کبھی ان کی برسی منانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ یہ تو خیر وہ شخصیات ہیں جن کا ریڈیو پر کبھی کبھار ذکر ہو جاتا ہے لیکن پشتو کے کچھ ایسے لکھاری بھی ہیں جن کی گمنامی کی وجہ سے بعض محقیقین نے ان کی ادبی کاوشوں کو دوسرے ادیبوں سے وابستہ کرکے انہیں مزید گمنام کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ان میں سے ایک سید عبدالغفور قاسمی کا ذکر میں اپنے گذشتہ کالم میں کر چکا ہوں۔ پشتو کے اس عظیم محقق کا تعلق مردان کے ایک قصبے آلو قاسمی سے تھا۔ انہوںنے آج سے کم و بیش اسی سال پہلے ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود کے ایما پر ’’تاریخ فرشتہ‘‘ کا ترجمہ دو جلدوں میں کیا۔ ’’اعلیٰ حضرت حکمران ریاست سوات کی سوانح حیات‘‘ کے نام سے ان کی زندگی کے مستند حالات اردو میں قلمبند کئے۔ عروج افغان کے نام سے تاریخ مرتب کی۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا مزار سوات میں ہے یا آلو قاسمی میں، ان کے زندگی کے حالات اور تعلیمی کوائف بھی ناپید ہیں۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ پشتو جو پاکستان کی دوسری بڑی زبان ہے اسے پشتو قلمکاروں نے اپنی ادبی کاوشوں سے زندہ رکھا ہے۔ سرکاری سرپرستی سے صرف پشتو ہی نہیں اس کے قلمکار بھی محروم ہیں۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں