عبیداللہ کیہر
بیڈ فورڈ بس مالا کنڈ کے پہاڑی راستے پر بے ہنگم رفتار سے بلندی کی جانب محو سفر ہے۔ بائیں طرف سنگلاخ پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرتی ایک دیوارہے اور دائیں طرف بس کے پہیوں سے چند ہی فٹ بعد سینکڑوں فٹ گہرے کھڈ ہیں۔ نیچے، بہت نیچے، سبز کھیتوں میں بہتی ہوئی ندی کا پانی جھاگ اڑاتا ہوا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے گھاس میں سے ایک سفید سانپ بل کھاتا ہوا گزر رہا ہو۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور خطرناک ہے۔ میں سانس روکے، خوفزدہ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے نیچے تک رہا ہوں۔ اچانک ایک بے ڈھب سا موڑ آتا ہے۔ ڈرائیور جیسے ہی بس کو جھٹکے سے موڑتا ہے، ہمارے دل اچھل کر حلق میں آجاتے ہیں۔ ’’کک․․․․․ کیا کررہے ہو استاد! آہستہ چلاؤ․․․․․‘‘صبور خوفزدہ لہجے میں ڈرائیور سے التجا کرتا ہے۔ بس کے مسافر ہماری حالت سے محظوظ ہورہے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہ سب نیا اور خطرناک نہیں۔ جب اس خوفناک موڑ کا کسی مسافر پر کوئی ردعمل نظر نہیں آتا تو صبورکھسیانی ہنسی کے ساتھ دوبارہ باہر دیکھنے لگتا ہے۔ یہ 1985ء کا نومبرتھا اور میں اپنے دو طالبِ علم دوستوں، عارف اور صبور کے ساتھ وادیٔ سوات کی طرف رواں تھا۔ وادیٔ سوات کی حدود شروع ہونے پر چند سپاہی بس میں داخل ہوئے اور چند مشکوک افراد کا سامان ٹٹولنے اور ہم جیسوں کو صرف گھورنے کے بعد اتر گئے۔ بس کے ٹائروں نے ایک اور گھماؤ لیا…… اورہم دریائے سوات کے جھاگ اڑاتے جھلملاتے پانیوں، گنگناتے چشموں، کنمناتے جھرنوں، ننھی منی آبشاروں،برف پوش چوٹیوں کی فلک پیما رفعتوں، خوش رنگ پھولوں،خوش شکل چہروں اور خوش دل لوگوں کی وادی،سوات میں داخل ہو چکے تھے۔
سوات نے جہاں مجھ جیسے معمولی سیاح کو اپنی طرف کھینچا ہے وہاں عظیم تاریخ ساز بھی اس کی کشش سے بچ نہیں سکے تھے۔ تاریخ کا عظیم فاتح، مقدونیہ کا سکندر اعظم 327 قبل مسیح میں یہاں آتا ہے، لیکن جب یہاں سے آگے بڑھتا ہے تو اس کے ساتھیوں کی ایک کثیر تعداد سوات کے حسن کی اسیر ہو کر یہیں رہ جاتی ہے۔ آج بھی ان کی اولاد اپنے یونانی حسن اور خواص کی بدولت دوسری قوموں سے منفرد نظر آتی ہے۔ امن کے پیرو بدھ یہاں کی سکون پرور فضا کو اپنے عقیدے کے مطابق سمجھ کر یہیں رہتے ہیں اور تاریخ کے نئے باب رقم ہوتے ہیں۔
پھر صدیوں کا اندھیرا چھٹتا ہے، اسلام کی روشنی پھیلتی ہے، عظیم بت شکن، غزنی کا محمود، جاء الحق و زہق الباطل کی سنت دہرانے کے لیے آتا ہے اور دین حق کی شعاعیں ان پہاڑوں کو منور کردیتی ہیں۔ مغل شہنشاہ اکبر، سوات کو مفتوح بنانے کی ناکام کوشش کرنے آتا ہے مگر اسے اپنے ایک عزیز رتن، راجہ بیربل سے ہاتھ دھونا پڑ تا ہے۔ اس کے بعد صدیوں تک یہاں یوسف زئی حکومت کرتے ہیں، او ر سن ساٹھ کی دہائی میں یہ ریاست پاکستان کا حصہ بنی تو ہم بھی اور ہم جیسے کئی دوسرے یہاں آنے کے قابل بن گئے۔تقریباََ ایک گھنٹہ اور چلنے کے بعد منزل قریب آگئی۔بلندیوں، پستیوں، اترائیوں، چڑھائیوں اور کھائیوں کے سفر کا پہلا حصہ ختم ہوا۔ پہاڑوں میں گھرے ہوئے شہر منگورہ میں داخل ہوتے ہی سڑک کے دونوں طرف دکانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور نگاہ محدود ہوگئی۔ بس نے تنگ آکر ان سے پیچھا چھڑانا چاہا اور ایک جگہ رستہ پاکر غوطہ لگا دیا، مگر دوسری طرف تو بس اسٹینڈ تھا۔
دوسرے دن ہماری ویگن منگورہ سے نکلی اور دریائے سوات کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔دریا کے وسیع پاٹ کا پس منظر برف پوش حسین چوٹیاں تھیں۔مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں واقعی اس جگہ پہنچ گیا ہوں یا ابھی تک گھر کے ڈرائنگ روم میں لگی کوئی تصویر دیکھ رہا ہوں؟ میں نے اپنے بازو پر چٹکی لی۔ارے یہ سب تو حقیقت ہے، اصل ہے۔ یقین نہیں آ رہا تھا مگر اب آگیا کہ میں جو اس فضا کو محسوس کر رہا ہوں، چاہوں تو اسے چھو کر، اس میں جذب ہو کر اس کا ایک حصہ بن سکتا ہوں۔ خوشحال خان خٹک نے سوات کو ’’شاہانہ سرمستی‘‘کے معنی پہنائے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ شاہ میں ہی ہوں، یا میں ہی خوشحال خان ہوں۔ ’’اپنا اپنا کرایہ نکالو صاحب!‘‘ ڈرائیور کی کرخت آواز نے ساری محویت کو توڑ دیا۔
میں جو باہر کے مناظر میں گم تھا، اندر کو لپکا، مطلوبہ رقم کنڈیکٹر کو تھمائی، اور جسم کے علاوہ ساری حسیات سمیت ایک بار پھر باہر کی فضاؤں میں پہنچ گیا۔تیز رفتاری کی وجہ سے مناظر لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے تھے۔ ہر منظر وقت چاہتا تھا مگر ہر جگہ رک رک کر چلنا بھی بس سے باہر تھا۔ آنکھوں کے دائیں گوشے سے جلوے طلوع ہوکر فوراً ہی بائیں گوشے میں غروب ہوتے جا رہے تھے۔ اتنی ساری دولت اور اتنی کم مہلت؟ دل اداس ہو گیا، مگر دل کے بہلانے کو آنکھ کیمرہ کے لینز پر اور انگلی شٹر پرجما دی۔ کلک۔ کلک کلک۔ حسن کا ذخیرہ جمع ہونے لگا۔
جس طرح پھولوں کی مالا بناتے ہوئے سوئی دھاگے کا پھولوں سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے، اسی طرح ہماری بس بھی سوئی دھاگے کا کام کر رہی تھی۔سرخ و سفید دمکتے چہروں والے بچوں کا ہجوم، سرمئی اسکول یونیفارم میں ملبوس، شور مچاتا،اچھلتا کودتا گزر گیا۔ گاڑی کوآتا دیکھ کر چرواے نے اپنی بکریوں کو زور زور سے ہانک کر سڑک سے ہٹانے کی کوشش کی اور ویگن ان کے ممیاتے ہوئے ہجوم میں سے رینگتی ہوئی گزرنے لگی۔ تیزی سے سڑک پار کرنے کی خواہش لیے دو بچے ٹھٹک کر رک گئے۔ ایک شخص نے چلتے چلتے رک کر گھڑی میں وقت دیکھا، سڑک سے نیچے اتر کر پانی تک پہنچا، وضو کیا اور وہیں ایک چوڑے پتھر پر نماز کی نیت باندھ لی۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر بکھرے گھر یوں نظر آتے تھے جیسے انسانوں نے نہیں بنائے بلکہ خود بہ خود اگ آئے ہوں، یا پھر گتے کے ڈبے ہیں جو نیچے کی طرف لڑھکتے لڑھکتے تھوڑی دیر کے لیے جھاڑیوں میں اٹک گئے ہوں۔
دریا کا پاٹ مختصر ہو گیا تھا۔ دونوں کناروں کو ملانے والے معلق پل تیز ہوا کے جھونکوں سے رقص پر آمادہ نظر آتے تھے۔ دریا کنارے فصلیں لہلہارہی تھیں۔ مکئی کے سٹے ڈھیروں کی صورت چھتوں پر پڑے سوکھ رہے تھے۔ خطرناک ڈھلوانوں پر بے فکری سے دوڑتے بھاگتے بچے دیکھ کر ہماری حیرت میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مدین کا قصبہ آیاتو اس کا حسن سمیٹنے میں آنکھیں دل کی کوئی مدد نہ کر سکیں۔ مدین سے نکل کے ایک آہنی پل پر سے ہم دریائے سوات کے دوسری طرف آ گئے۔ مختصر پاٹ پر ایستادہ، بے ستون سرخ پل ماحول کو نرالی جدت دے رہا تھا۔ اب راستہ نہایت خطرناک تھا۔ ڈرائیور پوری مہارت سے ویگن دوڑائے چلا جا رہا تھا۔ نصف گھنٹہ اور چلے ہوں گے کہ دریا دور ہٹتا چلا گیا اور ویگن دو رویہ دکانوں کے بیچ میں چلنے لگی۔ بحرین آگیا تھا۔ویگن بس اسٹینڈ میں آ کر رک گئی۔پہاڑی ڈھلوانوں پر قلانچیں بھرتے ہوئے میں، صبور اور عارف نیچے دریا تک پہنچ گئے۔ پانی میں پڑے ہوئے بڑے بڑے سفیدمدوّر پتھر یوں لگ رہے تھے جیسے کوئی جناتی پرندہ حسن فطرت کو نذرانے میں اپنے انڈے دے کر چلا گیا ہو۔ پانی پتھروں سے ٹکرا کر خوب جھاگ اور مسلسل شور پیدا کر رہا تھا۔ ہم ایک باہر نکلے ہوئے پتھر پر دریا کی قربت میں بیٹھ گئے۔ سامنے دوسرے کنارے پر پانی کی سطح سے تقریباً پچاس فٹ اوپر چمٹے ہوئے ایک گھروندے کے دروازے سے تین ننھے منے گڈے نکلے اور جھک کر حیرت زدہ آنکھیں پٹ پٹا کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم نے ہنستے ہوئے ہاتھ ہلائے۔ پھر بچوں کے اوپر جھکا ہوا ایک نسوانی چہرہ نظر آیا جس کی ممتا سے بھرپور نگاہیں ان کے وجود پر چھائی ہوئی تھیں۔ ماں اور بچے۔ اور اچانک اس لمحے کراچی سے بہت دور، مجھے اپنا گھر اوراپنی ماں یاد آنے لگی۔ بدن پر فاصلوں کی دھول محسوس ہونے لگی اور میں اداس ہو گیا۔ شام ہو رہی تھی۔ اخروٹ والا بوڑھا اپنا سامان سمیٹ کر کھوکھا بند کرنے لگا۔ ایک لکڑہارا دریا کے چوبی پل کو عبور کر کے دوسری طرف پہاڑ کی عمودی چڑھائی چڑھنے لگا۔ بغل میں گھاس کے گٹھڑ دبائے دو مرد سڑک پر سے گزرنے لگے۔
دو رنظر آنے والے برف پوش پہاڑوں کی ٹھنڈک چوٹیوں سے نیچے سرکنے لگی۔ میں نے سویٹر کی زپ اوپر تک بند کی اور اونی ٹوپ چڑھا لیا۔ واپسی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ دریا کا آخری قریبی دیدار کرنے کے لیے نیچے پانی کی سطح تک پہنچے اور نیلے نیلے پانی کو حسرت کی نظروں سے دیکھنے لگے۔منگورہ جانے والی آخری ویگن تیار کھڑی تھی۔ بس میں بیٹھ کر بحرین پر الوداعی نگاہیں ڈالیں۔ نگاہ بھٹکتی ہوئی سامنے پہاڑ کی چوٹی پر گئی۔ ڈوبتے سورج کی دم توڑتی زرد کرنوں کی روشنی میں ایک جسم حرکت کرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ یہ وہی لکڑ ہارا تھا۔ شاید پہاڑ کی دوسری طرف جا رہا تھا۔ ’’پتہ نہیں پہاڑ کے اس طرف کیا ہے؟‘‘ میں نے آنکھیں بند کر کے سوچا۔
’’کاش میں بھی ایک لکڑہارا ہوتا۔‘‘
گاڑی حرکت میں آئی تو ہم تینوں خاموش سوچوں میں گم تھے۔
منگورہ پہنچے تو رات اپنے قدم پوری طرح جما چکی تھی۔ آسمان پر ہزاروں ستارے جھلملا رہے تھے مگر ان کا سلسلہ پہاڑوں کی منڈیروں پر آکر رک نہیں گیا تھا۔ پہاڑوں پر بکھرے ہوئے گھروں میں جلتی ہوئی روشنیاں ستاروں کے سلسلے کو نیچے لے آئی تھیں۔ منگورہ ستاروں کا شہربن چکا تھا۔
اگلی صبح ہم مرغزار جانے والی سوزوکی پک اپ میں سوار ہورہے تھے۔ پک اپ آہستہ آہستہ مسافروں سے بھر گئی اور جب پچھلے پائیدان سے بھی چند مسافر لٹک گئے توہلکی سے غراہٹ کے ساتھ گاڑی کا انجن بیدار ہو گیا۔ تھوڑا آگے چل کر گاڑی نے ایک نالے کا پل عبور کیا اور سیدو شریف کی وسیع و عریض سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ ہمارے مقامی ہم سفروں کے جسموں سے جفاکشی اور لباس سے غربت ٹپکتی تھی۔ ان کی غربت کا احساس دل میں شدت سے اس وقت بیدار ہو ا جب ایک کمسن بچہ ہاتھ میں ٹفن کیریئر پکڑے شلوار قمیض میں ٹھٹھرتا سوار ہوا اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ سینے سے باندھ کر سردی سے بچنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ ہم جو موٹے اونی کپڑوں اور جیکٹوں میں بند ہونے کے باوجود سردی کی کاٹ محسوس کر رہے تھے، اسے اس حالت میں دیکھ کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔
’’آپ لوگ ادھر کس واسطے آیا ہے۔ یہاں تو خالی پتھر ہے، پہاڑ ہے، غریب لوگ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ ادھر کراچی جاؤ۔ لاہور گھومو۔ وہ بوہوت خوبصورت شہر ہے۔ ادھر کیا ملے گا؟‘‘ ہمارے برابر میں بیٹھا ایک شخص ہمارے دلوں کے اندر پہنچ گیا تھا۔
درختوں کے پتے خزاں کی آمد سے خشک ہونے لگے تھے اور گرنے سے پہلے سرخ اور نارنجی رنگت اختیار کر چکے تھے۔ نارنجی اور سرخ رنگوں سے مزین اس لباس میں درختوں پر یہ خزاں کی آمدتھی یا سرخ بہار کا آغاز۔ اکثر زندہ دل حضرات اپنی عمر کا حساب گزری ہوئی بہاروں کی گنتی سے لگاتے ہیں، مگر کچھ دل جلے گزری خزاؤں کے پیمانے سے بھی عمر رفتہ کو گنتے ہیں۔یہ لوگ اگر سوات کی خزاں دیکھ لیں تو پھر اپنی عمر کو نہ جانے کس موسم سے منسوب کریں گے؟
سڑک سے نیچے ایک پہاڑی نالہ زور و شور سے بہہ رہا تھا اور اس میں جا بہ جا مزید چھوٹے بڑے چشمے بھی شا مل ہو رہے تھے۔ پتھروں سے سر پٹکتے ہوئے دھاروں کی صدائیں اوپر تک پہنچ رہی تھیں۔ دوسرے کنارے پر سادہ دل لوگوں کے سادہ سے گھر تھے جن کی چھتوں پر صبح کی کمزور دھوپ میں سوکھتے ہوئے مکئی کے سنہرے بھٹے نظر آ رہے تھے۔اچانک گاڑی رک گئی۔ مرغزار آگیا تھا۔ یہاں سڑک ختم ہوتی ہے۔ سب اتر کر پیدل آگے بڑھ گئے۔ ایک جگہ تکونی چھت والی سفید خوبصورت عمارت نظر آئی۔ یہ اسپن محل تھا۔سفید محل۔ جو کبھی والیٔ سوات کی رہائش گاہ تھا، مگر اب ایک ہوٹل تھا۔ ہوٹل کے وسیع دالان پر کرسیاں میزیں لگی ہوئی تھیں۔ پہاڑی نالا اسی ہوٹل کے پہلو سے لگ کر گزر رہا تھا۔ نالے پر ایک چھوٹا سا پل تھا۔ پل کے کنارے پر ایک بوڑھا رنگ برنگے پتھروں، دھاتی انگوٹھیوں اورچھوٹی بڑی مالاؤں کا ڈھیر لگائے بیٹھا تھا۔ ایک’’ہنی مونی‘‘ جوڑا اس پر جھکا ہوا ایک پتھر کے دام کم کروانے کی کوشش کررہا تھا۔
پل کے دوسری طرف ایک پگڈنڈی تھی جو درختوں کے نیچے سے جاتی ہوئی پہاڑوں میں گم ہو رہی تھی۔ چند لکڑہارے کاندھوں پر گٹھڑ اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ درختوں سے جھڑے ہوئے سرخ پتے ہمارے قدموں تلے آئے تو چرمراکر احتجاج کرنے لگے۔ ہمارے قدم اوپر کی جانب بڑھنے لگے۔ اونچے اونچے درختوں اور خار دار جھاڑیوں سے ڈھکے ہوئے بلند پہاڑ کی عمودی چڑھائی، کانٹوں کی چبھن، ہوا کی لطافت اور لوہار کی دھونکنی کی طرح چلتی ہوئی سانس۔مگر بلند سے بلند تر ہونے کا جذبہ ہمیں لیے چلاجا رہا تھا۔ صبح کی خنکی کے باوجود جسم پسینے سے تر ہو رہے تھے۔ بے ترتیب چال سے آڑے ترچھے پیر مارتے ہوئے ہم وقفے وقفے سے آواز لگا کر ایک دوسرے کو اپنی پوزیشن سے آگاہ کررہے تھے کیونکہ جھاڑیوں کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو نظر نہیں آ رہے تھے۔ سناٹے میں اچانک گونجتی ہوئی ہماری آوازیں ایک عجیب ماحول تخلیق کر رہی تھیں۔میں ایک ہموار سی جگہ پر سانس لینے کے لیے رکا تو نیچے سے عارف کی گونجتی ہوئی صدا سنائی دیتی ہے۔ وہ تھک کر واپس جا رہاتھا۔ میں رک جاتا ہوں اور رخ موڑ کر اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ قدرت کا ایک وسیع کینوس میرے سامنے پھیلا ہوا تھا جس پر مصورِ فطرت نے وہ کچھ پینٹ کر دیا تھا کہ جس سے ایک عام مصور کے لاتعداد کینوس تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ مرغزار تھا۔عارف کی آواز دوسری مرتبہ آئی تو میں نے کیمرہ نکالا۔کلک․․․․․ کلک․․․․․ کلک․․․․․ اور واپسی۔
مرغزار ہماری سیاحت کا اینڈ پوائنٹ تھا۔