روح الامین نایابؔ 
’’شوکانڑے‘‘ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر دیدار یوسف زے کا پشتو شعری مجموعہ ہے۔ ’’شوکانڑے‘‘ سین یا خوڑ (ندی) میں پڑے ہوئے اُس پتھر کو کہا جاتا ہے جو نرم ہو، پتھر کی طرح سخت نہ ہو اور کالے، سیاہ تختے پر سفید لکھنے کا وصف رکھتا ہو۔ دیدار یوسف زئی خود ’’شوکانڑے‘‘ کے بارے میں اپنی ایک چھوٹی نظم میں فرماتے ہیں کہ 
زہ لمحہ لمحہ ماتیگم 
خو پہ کانڑو چاپ پریگدمہ 
پہ تنو ئی سوال پریگدمہ 
چی ما مہ وژنی ملگرو 
زہ خو ستاسو د وجود غم 
پہ ہر تو دیوال لیکمہ
یہاں ’’شوکانڑے‘‘ بہ طور ایک قومی علامت کے استعمال ہوا ہے جسے بوقتِ ضرورت دریا سے نکالا جاتا ہے، صاف کیا جاتا ہے اور استعمال کیا جاتا ہے۔ فوائد حاصل کرنے کے بعد پھر اُسے پھینک دیا جاتا ہے۔ ’’شوکانڑے‘‘ کا اپنا وجود ظلم و جبر کا شکار ہے۔ اُس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں، سوائے اسے استعمال کرنے کے۔ 
ہم می جمات شہ لوٹی لوٹی ہم حجرہ ورانہ شوہ 
ظالم زما د فکر ٹولی آئینی ماتی کڑی 
سحر پاٹک، غرمہ مور چی، ماخام سوکئی تہ ولاڑ 
زنزیر زنزیر قدم زمونگہ د ژوند خپی ماتی کڑی 
ورور می ٹوپک پلار می چاودنی زوئی خودکش وژلے 
دی غبرگو غبرگو جنازو رالہ اوگی ماتی کڑی 
حالات و واقعات کی صحیح عکس بندی اور اُس میں درد و غم کو سمو کر ایسا بیان کرنا، الفاظ کا جامہ پہنانا جو مخاطب پر اثر انداز ہوجائے ایک منجھے ہوئے اور سنجیدہ شاعر کا کام ہے۔ دیدار یوسف زے اگر چہ کینیڈا جیسے پُرامن اور خاموش ملک میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اُنہیں اپنے وطن کے خون آشام لمحات، تلخ و ترش اوقات، مظلوم عورتوں، بے گناہ بچوں کی کربناک چیخوں کی فریاد کسی لمحے نہیں بھولتی، وہ کیا کرے؟ وہ بھی ہر حساس پختون کی طرح خاموش تو نہیں رہ سکتا، وہ نہ آنکھیں بند کرسکتا ہے اور نہ کانوں میں روئی ٹھونس سکتا ہے۔ دیکھنے، سننے کے بعد وہ خاموش کیسے رہ سکتا ہے؟ اس لیے تو کہتے ہیں کہ 
تہ اوگورہ پہ تور دَ ترھگری باندے می وژنی 
دی یو رالہ ٹوپک او بل نقاب راوڑے دے 
گلونہ د سپرلی ژاڑی زما د زڑہ لہ دردہ 
ما بیا پہ وینو سور کور تہ گلاب راوڑے دے 
یہاں دیدار یوسف زے کی شاعری درد میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اُس نے اپنا قلم خونِ جگر میں ڈبو کر قوم کے قرطاس ابیض کو لہوسے لالہ زار کیا ہے۔ اُس کی رنگین بہاروں کے پھول رو رہے ہیں اور اُس کے گلاب کا پھول بہاروں کی مستی اور شوخ رنگت سے عاری ہے، بلکہ مظلوم انسانوں کے لہو سے سرخ ہے۔ یقین جانئے اُس کی شاعری خیالی اُڑان نہیں، گل و بلبل کی رنگین داستان نہیں، بلکہ زمینی حقائق کی ترجمان ہے۔ 
دیدار یوسف زے کو میں نے دیکھا ہے، اور نہ جان پہچان رکھتا ہوں۔ اُس کی سنجیدہ، حساس اور ٹھوس شاعری خود ایک بڑی پہچان ہے۔ وہ صرف شاعری نہیں ایک ایسا درد ناک بیانیہ ہے جو ہر ذی ہوش انسان کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ غور و فکر کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ایک ایسا پیغام دیتی ہے کہ اگر ایک جانب بے انصافیوں، جبر اور ظلم و ستم کی نشان دہی کرتی ہے، رُلاتی ہے اور سلگاتی بھی ہے۔ ساتھ ساتھ چنگاریوں کو ہوا دیتی ہے، خاموشیوں اور خوابِ خرگوش میں سوئے ہوئے کو جھنجھوڑتی ہے۔ 
تار ووم ستا د زلفو خو چی ستا پہ مخ مے وزانگل 
دار می دومرہ خوخ شہ چی اوس نور پہ بار کی نہ اوسم 
خال کہ دی اوربل کڑہ، ژوندئ درکڑۂ ما بہ اووینی 
اوسمہ پہ اور کی خو د مڑو پہ خار کی نہ اوسم 
جی ہاں، ٹھیک تو کہتا ہے۔ پشتونوں کی ہر بستی آج کل مردوں کی بستی ہے۔خود پر ظلم و جبر اور بے انصافی پر نہ آواز، نہ چیخ و پکار اور نہ احتجاج، نہ معرکہ، نہ جرگہ کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا اور یہ کس نے کیا؟ ہمارے ادیب، ہمارے شاعر نے تو فریاد کی ہے، رویا ہے، آنسوبہائے ہیں، لیکن احتجاج نہیں کیا ہے۔ وقت اور وقت کے حاکموں سے پوچھنے کی جسارت نہیں کی ہے اور کیسے کرے کہ یہاں تو سننے اور سہنے کی اجازت ہے، بولنے اور چیخنے کی نہیں۔ سوات اور پختونخوا کے درد و غم میں ڈوبے ہوئے حالات پر بہت کچھ لکھا گیا، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمارے درد وغم میں ڈوبے ہوئے ادبی فن پاروں نے عالمی ادب کا ضمیر نہیں جھنجھوڑا۔ دنیائے عالم کا قلم نہیں جاگا اور نہ اُن کے ادبی فن پارے ہی جاگے۔ کیا ہم جگانے میں ناکام ہوئے، یا وہ لمبی تان کر سوگئے ہیں؟ 
ایک پوری قوم کی کردار کشی ہو رہی ہے۔ بلوچی زندہ غائب ہو رہے ہیں، لیکن ان کے مردے بھی واپس نہیں ملتے، جو ہوتے ہیں وہ مسخ شدہ چہرے لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اُن کے بچے، عورتیں، اہل و عیال سالہاسال سے چیخ رہے ہیں، آہ و پکار اور فریاد کر رہے ہیں، لیکن دنیا نقار خانہ ہے جس میں توتی کی آواز کون سنتا ہے؟ 
یہ ہے کہ دلدار یوسف زے جیسے حساس اور زندہ شاعر بھلا کیسے خاموش رہ سکتا ہے، وہ ببانگ دُہل پوچھ رہا ہے، عالمی برادری سے سوال کررہا ہے۔ 
مالہ دا جنگ کوم یو دجال راوڑے؟
چا می پہ سیمہ دا وبال راوڑے؟ 
زما د تن وینہ ویڑیا ولی دہ؟
ما د نڑی امن لہ سوال راوڑے؟
بہت پہلے ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا کہ 
خون پھر خون سے ٹپکے گا تو جم جائے گا 
دیدار یوسف زے نے اسی فکر کو بہت خوبصورت شعر میں سمودیا ہے، جس میں ظلم و زیادتی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اُمیدوں کے چراغ بھی روشن دکھائی دیتے ہیں۔ 
د مظلوم وینی ئی دیوال تہ ڈب شوے 
اوس خو کیدے شی دا قلا ورانہ شی 
کتنا خوبصورت اور اعلیٰ پائے کا شعر ہے۔ ایک شعر میں ظلم و جبر کے حالات کی انتہائی حدوں اور پھر خاتمے کی نوید سنائی گئی ہے، لیکن اس ظلم و جبر کے قلعے کو ڈھانے کے لیے لہو کی قربانی دینے کی شرط عائد کی گئی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انقلاب اور تبدیلی لہو بہائے بغیر نہ پہلے آئی ہے، نہ اب آسکتی ہے۔
’’شوکانڑے‘‘ پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دیدار یوسف زے سوات کے ’’کالا کلے‘‘ کے رہنے والے ہوں۔ پشتو ادب کے حوالے سے یہ گاؤں بہت زر خیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے عنایت اللہ یاسر یاد آگئے، جس نے پشتو میں ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ نامی یادگار ناول لکھ کر پشتو کے ناول نگاروں میں اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ ٹھیک اسی طرح دلدار یوسف زے نے ’’شوکانڑے‘‘ تخلیق کرکے دنیائے شاعری میں اپنا مقام پی کر لیا ہے۔ میں اس شعری مجموعے پر ڈاکٹر دلدار یوسف زے کو مبارک باد دیتا ہوں اور اپنے پیارے دوست ہمایوں مسعود کا خاص طور پر شکر گزار ہوں، جنہوں نے ’’شوکانڑے‘‘ بطورِ تحفہ مجھے عطا کیا۔ ہمایوں مسعود صاحب علم دوست انسان ہیں۔ اچھی اور تحقیقی کتب کا نہ صرف خود مطالعہ کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی عنایت کرتے ہیں۔ 
’’شوکانڑے‘‘ 303 صفحات پر مشتمل خوبصورت سرورق، مجلد، سفید نرم کاغذ پر لکھی ہوئی شاعری ہے۔ اس میں غزلیات کے ساتھ ساتھ قطعات بھی ہیں۔ خوبصورت با مقصد نظموں نے بھی کتاب کی دلکشی میں اضافہ کیا ہے۔
’’شوکانڑے‘‘ شعیب سنز نے شائع کی ہے۔ فضل ربی راہیؔ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کتاب کی خوبصورتی اور معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ لہٰذا ’’شوکانڑے‘‘ اپنی خوبصورتی، معیار اور گٹ اپ کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب شعیب سنز مین بازار مینگورہ سے ہر وقت تین سو پچاس روپے کی موزوں قیمت پر دستیاب ہے۔ ’’شوکانڑے‘‘ جیسی انمول اور نایاب کتاب تین سو پچاس روپے کے عوض خرید کر آپ نہیں پچھتائیں گے۔ اس دعا کے ساتھ کہ ڈاکٹر دیدار یوسف زے کا زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ اس کی فکر اور اُڑان اسی طرح رہے۔ اجازت چاہتا ہوں گا۔
قارئین کرام! کیوں نہ جاتے جاتے آخر میں دیدار صاحب کا ایک قطعہ عرض کروں، جس میں ایک ارادہ ہے، فیصلہ ہے، جرأت اور یقین ہے۔ 
سو کالہ ژوند د پختنو بہ گٹم 
زانلہ مرام د موسیدو بہ گٹم 
زہ خپل قلم د لاسہ نہ غورزووم 
خپلہ شملہ، خپلہ پختو بہ گٹم