روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! اس وقت نواز شریف پسِ زِندان شب و روز گزار رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد بھی بحیثیت قیدی جیل میں ہیں۔ تخت سے تختہ کیوں ہوا، بہار، خزاں میں کیوں تبدیل ہوئی، گلستاں، جہنم زار میں کیسے تبدیل ہوا؟ اس میں شک نہیں کہ اس قیامت برپا کرنے میں ’’خلائی مخلوق‘‘ کا بھی ہاتھ ہوگا، ورنہ ہائی کورٹ کا سینئر جج ببانگ دُہل ایک سنگین الزام کیسے لگا سکتا تھا؟ لیکن ان حالات کو پیدا کرنے میں خود نواز شریف کی غلطیاں بھی ہیں۔ اُن کی خود سری اور خوش فہمیاں انہیں لے ڈوبیں۔ اُنہوں نے اپنے عہدے کی صحیح اور ایمان داری سے استعمال نہ کرکے اپنے آپ کو پاکستان کی بجائے صرف پنجاب کا وزیراعظم ثابت کیا۔ ہر مد میں خیبر پختونخوا کے ساتھ زیادتی کی گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ پنجاب اور پنجابیوں کے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود کیا پنجابی نوازشریف کے ساتھ وفا کریں گے؟ کبھی نہیں!
پنجاب کی یہ تاریخ رہی ہے، جس قوم کی اجزائے ترکیبی میں سکندر شاہی، مغل شاہی، نادر شاہی، احمد شاہی، مرہٹہ شاہی، سکھا شاہی، انگریز شاہی کے بعد وڈیرہ شاہی اور ’’کالا گورا شاہی‘‘ شامل ہو، وہ کبھی کسی سے وفاداری نہیں کرسکتے۔ وہ نوازشریف کے لیے ڈنڈے لاٹھیاں کھانا تو دور کی بات، اسمبلیوں کے ٹھنڈے ایوانوں کے اندر اپنا ووٹ بھی نہیں دیں گے۔ وہ ووٹ جو انہوں نے شریف برادران کے نام پر اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لیا ہے اور ہم سب نے دیکھا کہ پنجاب اسمبلی میں کیا ہوا؟ عددی اکثریت لینے والی پارٹی، سپیکر اور وزیراعلیٰ کی نشستیں بھاری اکثریت سے ہار گئی۔ یہ ہمارا سیاسی قومی المیہ ہے کہ موقع پرستی اور مفاد پرستی سیاسی بتوں میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے۔ سیاسی بت اس وجہ سے کہ جن کا کوئی ایمان، سوچ، نظریہ، اعتبار اور اعتماد نہ ہو، وہ انسان نہیں بت ہی ہوتا ہے۔ جدھر کوئی چاہے لے جائے، جدھر کوئی اس کا چہرہ گھمائے اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔
سیاسی حوالے سے سوچ اور نظریے کی کیا بات کریں؟ جس پارٹی کا لیڈر جیل کی ہوا کھا کر نظریاتی بن گیا ہو، اس کے کارکنوں سے کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے؟ پھر مسلم لیگ کو تو پرانے وقتوں سے طوائف کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس طاقتور ہاتھ نے اس کی جیب میں مفادات کے نوٹ رکھے، یہ بلا سوچے سمجھے اُس کے ساتھ چلی گئی۔ ایوب خان مرحوم سے لے کر پرویز مشرف تک ہر فوجی آمر کی گھر کی لونڈی رہی۔ جتنے ٹکڑے ان کے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، کسی اور پارٹی کے نہیں ہوتے۔ یہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ ہے، یہ ’’ق‘‘ ہے۔ وہ قائد اعظم لیگ ہے، یہ آل پاکستان مسلم لیگ ہے، یہ عوامی لیگ ہے، وہ پیر پگاڑا لیگ ہے۔ کچھ عرصہ تو ضیا لیگ کے نام سے بھی تحریک چلتی رہی۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کارکن (مع سیاسی جماعتیں) سیاست نہیں سمجھتے۔ سیاسی کارکنوں کو کارکن کم، غلام اور مرید زیادہ بنایا گیا ہے۔ خود لیڈر حضرات سیاسی پنڈت بنے بیٹھے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے نزدیک اپنا سیاسی لیڈر پیغمبری کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اُس سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ اُس پر تنقید اور اعتراض کرنا کفر کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ آپ لوگ گلی کوچوں اور بازاروں یہاں تک کہ ٹاک شوز میں ٹی وی سکرین پر بے ہودہ گفتگو، گالیاں بلکہ ہاتھائی پائی تک روزانہ کے حساب سے دیکھ سکتے ہیں۔ برداشت ختم ہے، جمہوری رواداری کا جنازہ کب کا نکل چکا ہے۔ سیاسی سوجھ بوجھ نام کو بھی نہیں۔ کوئی سوچ، نظریہ اور وژن نہیں۔ بس سیاست اقتدار تک رسائی کا نام ہے اور دوسروں کو تاڑنے اور شکست کا مزہ لینے کا نام ہے، فاتح بننے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا ہے۔ سیاست کا معیار اور اخلاقی اقدار ختم ہوچکی ہیں، جو پارلیمنٹ کل دوسروں کے لیے لعنتی تھا، آج اقتدار کی کایا پلٹ کر بر سر اقتدار پارٹی کے لیے مقدس ایوان بن چکا ہے۔ اب اس مقدس ایوان کے احترام کرنے، آرام سے سننے، سنانے، چلنے، اخلاق کے درس دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، جو ایوان کل جن کے لیے مقدس تھا، آج ہارنے کے بعد ’’جعلی‘‘ اور ’’سازشی‘‘ ایوان بن گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں وقت وقت کی بات۔
قارئین، جب بار بار کہا جا رہا تھا، سمجھایا جا رہا تھا کہ اتنا اخلاف کرو جتنا برداشت کرسکتے ہو، اتنا بکواس، جھوٹ، گالیاں اور مغلظات بکو جتنا پھر جواب میں سننے کا حوصلہ ہو، لیکن یہاں تو سنانے کی طاقت انتہائی زیادہ اور سننے کی طاقت انتہائی کم ہے۔ اپنے بلے سے شیر کو مار مار کر اَدھ موا کر دیا۔ اب زخمی اَدھ موئے شیر کے دھاڑنے اور فریاد کرنے سے گھبرانے کا کیا مطلب ہے؟
جیل کی کال کوٹھڑی میں بند باپ بیٹی کا نام ’’ای سی ایل‘‘ میں ڈالنے کی ایسی کیا جلدی تھی؟ اسی پانامہ لسٹ میں نواز شریف کے علاوہ چار سو ’’چور‘‘ اور بھی ہیں۔ اُنہیں بھی تو پوچھنا چاہیے۔ فکر نہ کرو یہ آزاد نہیں ہوں گے۔ آزاد تو پختونوں کا قاتل ’’بہادر بچہ‘‘ راؤ انوار ہوگیا۔ کیوں کہ ’’عدالتی قتل‘‘ بھی تو ہوتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے راؤ انوار صاحب کو تمام الزامات سے بری کردیا ہے۔ ٹھیک ہے عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر، لیکن ایک پختون نوجوان نقیب اللہ مسعود سے خوبصورت زندگی کا حق چھینا گیا ہے، آخر وہ ظالم کون ہے، کسی نے تو اُس کو مارا ہوگا؟ اگر راؤ انوار نہیں تو پھر کون ہے وہ ظالم؟ یہ سوال صحرا میں دی جانے والی آواز ہے۔ یہ سوال مقتول کے ورثا اور ہر پختون پوچھ رہا ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب کو ڈیم بنانے سے فرصت ملے، تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔ ورنہ پختونوں کی خاموشی کو بزدلی اور خوف سے تعبیر نہ کیا جائے۔ یہ خاموشی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
ہاں، تو بات ہورہی تھی سیاسی پنڈتوں اور سیاسی کارکنوں کی۔۔۔ سیاسی کارکنوں کی کوئی تربیت نہیں ہوتی، انہیں دنیا کی اور پاکستانی سیاسی تاریخ کی کوئی شد بد نہیں ہوتی، انہیں تضادات کا نہیں پتا، انہیں طبقات کا علم نہیں، انہیں سیاسی شعور کی آگاہی نہیں، انہیں جاگیرداری، سرمایہ داری ہتھکنڈوں کا علم نہیں، جو تھوڑا بہت نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے، وہ سراسر جھوٹ اور الٹا پڑھایا جاتا ہے۔ انہیں انقلاب اور تبدیلی میں فرق کا نہیں پتا، بلکہ انہیں اصل تبدیلی کے حوالہ سے بھی بہتر طریقے سے معلوم نہیں۔ اگر وزیراعظم، وزیراعظم ہاؤس میں رہنے سے انکار کرے، تو اُن کے لیے یہ بڑی تبدیلی ہوگی۔ اپنے سیاسی لیڈر کی ہر بات حرف آخر مانی جائے گی، جو اس میں بات یا بحث کرے گا، تو اُسے قابلِ، گردن زدنی سمجھا جائے۔ ہم تو ایک بات آخر میں کہے دیتے ہیں کہ صرف چہرے بدلے ہیں، کرسیاں نہیں۔ وہی ڈرامہ ہے۔ بس تھوڑے بہت کردار بدلے ہیں۔ بعض تو کردار بھی وہی ہیں، نام بھی وہی ہیں، صرف وقت اور پارٹی بدل گئی ہے۔ حالات کے تقاضے بدلے ہیں۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ پرویز مشرف کا رائٹ ہینڈ 100 مرتبہ وردی میں صدرِ پاکستان منتخب کرنے والا آج بڑے صوبے کے بڑے جمہوری ایوان کا سپیکر بن گیا ہے۔
اس خوبصورت بات پر اس تحریری سلسلے کا اختتام کرتے ہیں کہ زندگی بہت خوبصورت چیز ہے۔ اس کو گزارنے کے لیے کسی اچھے مقصد کا ہونا بہت ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔