فضل محمود روخان
میں یوں ہی فیس بُک پر وقت گزاری کر رہا تھا کہ اچانک لکھاری بخت تاج کی موت کی خبر پر نظر رُک گئی۔ خبر پر درج تاریخ اور وقت کو دیکھا، تو تو یہ 31مارچ کی شب تھی۔ میں نے وقت پر نظر ڈالی، تو موصوف کی نمازِ جنازہ کا وقت گزر چکا تھا۔ اس لیے دوسرے دن اُن کی قبر پر دعا کے لیے حاضری د ی اور فاتحہ پڑھی۔ اُن کے بچوں اور رشتہ داروں سے اظہارِ ہمدردی کے لیے ان کے ہاں چلا گیا۔ اللہ بخشے مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ 
بخت تاج کے ساتھ میرا تعلق گذشتہ آٹھ دس سال سے تھا۔ موصوف کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ اخبارات میں بھی لکھتے تھے۔ تصوف سے اُن کی آشنائی تھی۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ ذکر اذکار اُن کا مشغلہ تھا۔ بھلے دنوں میں کتابوں کی دکان چلایا کرتے تھے۔ ان کی طبیعت میں عاجزی کا عنصر نمایاں تھا۔ مدہم لہجے میں باتیں کرتے تھے۔ با ادب اور با وقار شخصیت کے مالک تھے۔ 
بخت تاج سوشل زندگی گزارنے والے انسان تھے۔ لوگوں سے اُن کا تعلق بہت وسیع تھا۔ سوات کے اکابرین سے جان پہچان تھی۔ سب اُن کا خیال رکھتے تھے۔ سوات کے نامی گرامی لوگوں کو انہوں نے اپنی تاریخی کتب میں جگہ دے رکھی تھی۔ اُن کو سوات اوریہاں کے اکابرین سے بہت محبت تھی۔
دانتوں کی وجہ سے بیمار پڑگئے تھے اور جلد صحت یاب ہونے کے لیے پُرامید تھے۔ اُن کا ایک بیٹا دبئی میں کام کرتاہے۔ اس کے علاوہ اُن کے کئی رشتہ دار بھی دبئی میں بر سرروزگار ہیں۔
بخت تاج کی بیماری کے دنوں میں اُن کے بیٹے اجمل خان کی شادی ہوئی۔ وہ اپنے بیٹے کو لینے خود پشاور ائیر پورٹ تک بیماری کی حالت میں گئے تھے۔ اس نے اپنے بیٹے کو شادی کے موقع پر ایک نئے گھر کا تحفہ دیا۔ 
اپنی زندگی کے آخری سال 2019ء میں انہوں نے اپنی نئی تاریخی کتاب ’’تاریخ سوات‘‘ کی اشاعت یقینی بنائی۔بیٹے کی شادی کے چھٹے دن ہی اُس کی بیماری نے شدت اختیار کی، مجبوراً انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اسپتال منتقلی سے پہلے انہوں نے مجھے فون پراپنی حالت اور اسپتال منتقلی کے حوالے سے آگاہ کیا۔ 
قارئین، سوات میں بخت تاج نے حجرہ کلچرکو اپنے قلم سے زندہ رکھا تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے سوات کے خوانین کے حجروں میں جاتے تھے۔ حجرہ کلچر کے حوالے سے اُن کے انٹرویوز ریکارڈ کرتے تھے اور سوشل میڈیا پر اُنہیں نشر کرتے تھے۔ بعد میں ان انٹرویوز کو اپنی کتابوں میں شامل کرتے تھے اور اخبار میں کالموں کی زینت بناتے تھے۔ سوات کے شاہی خاندان کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سوات کے جملہ سادات خاندان (میاں، سیدان، علمی خانوادے) کی قدر کرتے تھے اور ان کے بڑے بوڑھوں کے لیے محبت کے جذبات رکھتے تھے۔ 
موصوف کا میرے ساتھ روز کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ میں اُن کی باتوں سے محظوظ ہوتا تھااور اُن کے خیالات سے مستفید ہوتا رہتاتھا۔ میرے خیال میں اُنہیں اتنی جلدی نہیں مرناچاہیے تھا۔ کیوں کہ بظاہر وہ بھلے چنگے تھے۔ مجھے اُن کی بیماری کا پتا نہیں تھا۔ انہوں نے مصنوعی دانت رکھنے کے لیے اپنے تمام قدرتی دانت نکال دیے تھے، جس سے ان کے مسوڑوں میں سوجن ہوگئی تھی۔ اسی بنا پر وہ کھانا نہیں کھا سکتے تھے اور بالآخر غذائی کمزوری ہی ان کے انتقال کی وجہ بنی۔
ہسپتال سے واپسی پر انہوں نے میرے پاس آنا تھا، لیکن وہ نہیں آئے