تصدیق اقبال بابو
عامر یاد گو کہ شہری بابو ہیں، لیکن ہمارے ادبی دوست بھی ہیں۔ ایک دفعہ ہم اُن کے پبلشنگ ادارے عامر پرنٹرز محلہ جنگی پشاور میں بیٹھے گپیں لگا رہے تھے کہ ایک نستعلیق اور باوقار شخص دفتر میں داخل ہوئے۔ وہ مناسب ڈیل ڈول اور قدرے دراز قد کے صحت مند شخص تھے۔ دیکھنے میں وہ پہلوان نظر آ رہے تھے۔ کشادہ پیشانی، نکھرے چہرے اور سبزی مائل بھوری آنکھوں والے اس شخص کے چہرے پہ ہلکی داڑھی اور ہاتھ میں تسبیح بھی تھی۔ گوری رنگت اور متبسم چہرے والے اس شخص نے اپنا تعارف سید فرید اللہ شاہ حساسؔ کے نام سے کیا۔ اور کہا کہ ’’میں ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے وغیرہ لکھتا ہوں۔کبھی کبھی فنکاری بھی کرلیا کرتا ہوں۔ البتہ نثر میں طنز و مِزاح کی راہ اپنائی ہوئی ہے۔ اور ’’دا مزے پہ خار کے دی‘‘ اور ’’گڈو کے اُوخ‘‘ نامی کتب چھپ کر مارکیٹ میں آچکی ہیں۔‘‘
اس سمے انہوں نے ’’گڈو کے اوخ‘‘ نامی کتاب پر دستخط ثبت فرما کر مجھے اور روح الامین نایابؔ صاحب کو تحفتاً عنایت بھی کی۔ سچ پوچھئے، تو کتب کی بہتات کی وجہ سے میں اُسے بروقت نہ پڑھ سکا۔ گذشتہ دنوں سوات کے معروف سکول ایس پی ایس میں ’’جشنِ اباسین‘‘ کے عنوان سے ایک رنگارنگ پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں صوبے بھر سے نامور ادبی شخصیات کو بلایا گیا تھا۔ خاص مہمانوں کے پنڈال میں فریداللہ شاہ حساسؔ بھی موجود تھا۔ جسے دیکھ میں بار بار دل میں کہہ رہا تھا کہ اس بندے کو کہیں دیکھا ہے۔ نایاب صاحب کا حافظہ بھی کام نہیں کررہا تھا، لیکن جب سٹیج سیکرٹری نے اُن کا نام لے کر انہیں مقالہ پڑھنے کی دعوت دی، تو ہمیں بڑی سبکی اور ندامت ہوئی کہ ہم سوات میں مہمان کے آگے انجان بنے بیٹھے ہیں۔ موصوف نے دھڑلے سے مقالہ پیش کیا۔ وہ اتنا پُرتاثیر، باکمال اور طنز و مِزاح سے بھرا مقالہ تھا کہ ہر کسی نے اُن پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ امجد علی سحاب تو دوڑے دوڑے اُن کے پاس گئے اور مسودے کا عکس (بہ غرضِ ترجمہ) حاسل کرلیا کہ ’’روزنامہ آزادی‘‘ اور شاید ’’لفظونہ‘‘ میں چھاپیں گے۔ مَیں اور نایاب صاحب بھی اُٹھے اور گلے ملتے ہوئے اپنا تعارف کرایا کہ ہم وہی عامر پرنٹنگ والے ہیں۔ آج رات آپ نے ہمارے ساتھ گزارنی ہے، لیکن اُنہیں واپس جانے کی جلدی تھی، اور وہ چلے گئے۔ اُن کی کتاب پہ تبصرہ مجھ پہ قرض تھا، لیکن میں ٹھہرا ازل کا سُست۔ بقول شاعر:
تیری یادیں تو زندہ ہیں مگر مجبور دل میرا
کبھی دفتر کبھی گھر بار کی الجھن میں رہتا ہے
گذشتہ دنوں میں اور نایاب صاحب پھر پشاور گئے۔ پھر عامر پرنٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ پھر وہی شخص اُسی انداز میں تسبیح ہاتھ میں لیے دفتر میں داخل ہوا۔ اب کی بار اُس کی تیسری کتاب ’’سنڈہ تہ سریندہ‘‘ بھی چھپ کر مارکیٹ میں آچکی تھی۔ انہوں نے محبت سے ہمیں بھی ایک ایک نسخہ عنایت کیا۔ اُس دن اُن کا روزہ تھا، لیکن چپ کا روزہ نہیں تھا۔ کتاب دیتے ہوئے یہ طنزیہ جملہ بھی کہہ دیا کہ ’’کتابیں پڑھ بھی لیا کرو‘‘ میں نے جھٹ سے تبصرے کا وعدہ کر ڈالا۔
گھر آکے احساس ہوا کہ جس کی تعریف میں سلیم راز، سعد اللہ جان برقؔ ، محمد آصف صمیم، نورالبشرنوید، گل محمد بیتابؔ ، ڈاکٹر اسرارؔ ، فیض الوہاب فیضؔ ، سمیع الدین ارمانؔ ، ڈاکٹر تاج الدین فطرتؔ اور پروڈیوسر کریم خان جیسے اساتذہ اور مشاہیر نے قلم اُٹھایا ہو، اور توصیفی دُر لنڈھائے ہوں، وہاں مجھ جیسے بے نام اور بے زبان کی کیا حیثیت کہ تبصرے کرتا پھروں؟ بہر کیف حساسؔ صاحب! آپ کا مجرم حاضر ہے۔ بڑھیا کی طرح یوسف کے خریداروں میں نام ڈال کر وعدہ پورا کررہا ہوں، ’’گر قبول افتدز ہے عزو شرف‘‘۔
دونوں کتابیں پڑھ کر احساس ہوا کہ حساسؔ نے اپنی انشائیہ نما مزاحیہ تحریروں کے ذریعے معاشرے کے اداس، پژمردہ اور افسردہ چہروں پہ مسکراہٹ، چلبلاہٹ اور کھلکھلاہٹ لانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وہ اپنے تخیل اور زورِ بیاں کی بدولت لفظی مینا کاری کرتے نظر آتے ہیں۔ ہنسی مزاق کے ہلکے پھلکے انداز میں آپ کا اصل مقصد اصلاحِ معاشرہ اور تفننِ طبع ہی ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی طنز کا پیرایہ استعمال کرتے ہیں، تو کبھی مِزاح کی آڑ میں شکر لگی کڑوی گولی بھی کھلا دیتے ہیں۔ ان تحریروں میں ہمارے معاشرے کے تمام رنگ روپ اور بہروپ موجود ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر مضامین میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرکے اپنے آپ ہی کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ چوں کہ وہ اک ڈرامہ نگار ہیں، اس لیے اُن کی تحریروں میں بھی محاکاتی مناظر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ کردار نگاری، منظر نگاری اور مکالمہ نگاری میں پختگی آپ کی ادب سے گہری وابستگی کی دلیل ہے۔ آپ کی تینوں کتابوں کے نام علامتی ہیں۔ پہلی کتاب ’’دا مزے پہ خار کے دی‘‘ کالموں کا مجموعہ ہے، جس میں سنا ہے زیادہ تر پشاور شہر کے ’’مزوں‘‘ کا ذکر ہے۔ دوسری کتاب ’’گڈو کے اُوخ‘‘ مِزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں عوام کو بھیڑ بکریوں سے تشبیہ دی گئی ہے، جب کہ اشرافیہ کو اونٹ، گدھے، خچر اور گھوڑوں کی علامتوں میں باندھا گیا ہے۔ تیسری کتاب بھی اشرافیہ جیسے ’’سنڈھے‘‘ کے آگے عوامی چیخ و پکار، بھینس کے آگے بین بجانے ہی کے مترادف ہے۔ بس اتنا ہے کہ اردو میں ہم ’’بھینس کے آگے بین‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں، تو پشتو میں بھینس کی بجائے ’’سنڈھا‘‘ آگیا ہے۔ جانے کیوں ’’ ہم‘‘ تانیث کی بجائے تذکیر کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے تو ’’ہماری قوم‘‘ کو بھی ’’ہمارا قوم‘‘ بنادیا ہے اور تو اور رحمان بابا سے لے کر حمید بابا جیسوں نے تو یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ
خط پہ مخ د صنم راغے
کہ سپوگمئی شوہ پہ ہالہ کے
کہا جاتا ہے کہ مِزاح نگار دوسروں کو ہنساتا ہے، لیکن خود اندر سے کرچی کرچی اور کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔ اُسے معاشرے کے دُکھ کھائے اور گھلائے جاتے ہیں۔ حساسؔ تو چوں کہ ’’حساس‘‘ ہے۔ اس لیے انہوں نے طنز و مِزاح کی راہ اختیار کرکے عوام کو شعور اور اشرافیہ کو ٹیکا لگانے کا جو کام ظرافتی اور چلبلے انداز میں کیا ہے، قابلِ داد ہی نہیں، واجب الداد بھی ہے۔ میں انہیں سوات کی فضاؤں سے ہاتھ لہرا لہرا کر تھپکی دیتا ہوں اور عامر یاد کو بھی اتنی خوبصورت کتابیں چھاپنے پر شاباشی دیتا ہوں ۔
کچھ سید فرید اللہ شاہ حساسؔ کے بارے میں
