فضل مولا زاہدؔ
شناسائی ایسی کہ دنیا کے خوبصورت خطوں میں ”خود نما“ یہ وطن جس کا ہر ذرّہ، مٹی، پتھر، پہاڑ، ڈھلوان، چشمے، دریا، دشت و صحرا، میدان، پہاڑ، پودے، ہر ذی روح سب کے سب اپنائیت و رعنائیت کے ایسے جنونی جذبوں سے سرشار ہیں، جو اس بھرپور اور وسیع جہاں میں یکمشت کہیں بھی میسر نہیں۔ چند دنوں میں یہ خطہ پاکستان کے ”قبلہ شریف“ اسلام آباد سے کوئی دو سوا دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہونے والا ہے۔ یقین نہ آئے، تو خود حساب کر لیں۔ مینگورہ سے چکدرہ ایک گھنٹا، چکدرہ ٹنل سے اسلام آباد تک سوا گھنٹا۔ پچھلی صدی کے قریب قریب ایک دن کا سفر، سکڑ کرایک سو پچاس منٹ کا ہو جائے گا۔ پھر چترال ٹنل کے کھلنے کا معجزہ دیکھو، جہاں سے سیاح ایک طرف چترال وگلگت سے اور دوسری طرف بشام کے راستے سوات و کالام کے حسن سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ بین الااقوامی سیاحت کے فروغ میں تاخیر سہی، کچھ ہی عرصہ میں یہاں پر پنجاب کے سیاحوں کا یلغار شروع ہوگا۔ ملاکنڈ ٹنل اور موٹر وے کے کھلنے سے سوات اور راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان رابطے زیادہ آسان، ارزاں، پرامن اور یقینی ہو جائیں گے۔ نئی دوستیاں اور تعلق اُستوار ہوں گے۔ کاروباری سلسلوں کا رجحان لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی اسلام آباد کے ساتھ بڑھے گا۔ مریضوں کا اگر گھر سے باہر علاج کرنا مقصود ہو، تو پشاور کی بجائے پنڈی اسلام آباد کیوں نہیں، جہاں نامور ڈاکٹرز زیادہ سہولتوں اور بہتر ڈیلنگ کے ساتھ مقابلتاً کم خرچ پردستیاب ہیں۔ مردان، نوشہرہ،چارسدہ اور پشاور کے لوگوں کی سوات میں آمد و رفت تو بڑھ جائے گی، لیکن یہاں کے عوام کے وہاں آنے جانے اور میل ملاپ میں کمی آئے گی، جو نیک شگون نہیں۔ اِس رجحان کو روکنے کے لیے حکومت کو جی ٹی روڈ کی توسیع کے ساتھ درگئی، چارسدہ موٹر وے لنک بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان، رسم ورواج، ربط و ضبط کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ مردان سے سوات تک جی ٹی روڈ پر بنے بڑے بڑے ریسٹورنٹس، پیٹرول پمپس، کاروباری مراکز وغیرہ سوگوار ہو جائیں گے۔ موٹر وے پر ایک نیا کلچر متعارف ہوگا کھانے پینے کا، یاری دوستی کا، موج میلے کا، نائٹ ٹور ازم کا اور اسی طرح فکر و خیال کے گھوڑے دوڑاتے جائیں۔
انہیں سوچوں میں غلطاں و پیچاں افضل شاہ باچا کے ڈیرے بریکوٹ ناٹ میرہ پہنچتے ہیں۔ شاہ صاحب کے ساتھ ساتھ ناٹ میرہ محمد رحیم خان کا بھی ٹھکانا ہے۔ وہ ایک محنتی اور ایمان دار انسان تو ہے ہی، صوبے کی زرعی تحقیق کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں۔ اُن کے دَور میں زرعی تحقیق کاشعبہ بڑا متحرک ہوا۔ تحقیقی مراکز اَپ گریڈ ہوئے، فصلات کو ترقی ملی۔ آڑو، آلوچہ کے باغات کو سوات میں توجہ ملی، جو مستقل بنیادوں پر ہزاروں افراد کی روزی روٹی کا ذریعہ بنے ہیں۔ سرکار سے اب اُن کا کوئی سروکار نہیں۔ اِس بستی کی جو خشک و بارانی میرہ زمینیں تھیں، وہ سونا بن گئی ہیں اب۔ ہر طرف باغات ہی باغات جوہیں، یہ محمد رحیم خان کے کمالات ہیں۔ ماشاء اللہ، جہاں اپنے دوست ہوں گے، وہاں زیتون کے چند پودے ضرور ہوں گے۔ شاہ صاحب کے ڈیرے پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ یہاں موجود زیتون کے دس پودوں کے پاس جاتے ہیں۔ باقاعدہ علیک سلیک کرتے ہیں، حال و احوال پوچھتے ہیں، سیلفیاں بنواتے ہیں۔ ایک عرصہ ہواہم جب بھی کسی پھلوں کے باغ سے گزرتے ہیں، تو کھیتی کے اندر گھستے ہیں، تمام پودوں پر اجتماعی سلام ڈالتے ہیں، پتوں سے باقاعدہ ہاتھ ملاتے ہیں اور اُن کی مزاج پرسی کرتے ہیں، کچھ دیر کے لیے گھوم گھام کر کھیتی سے نکلتے ہیں۔ یہ ہمارے سارے دوست جانتے ہیں۔ صرف یہی اپنی پہلی و آخری عادت ہے جو پکی ہے۔ تمام کے تمام پودے اس سال پھولوں سے نڈھال ہیں۔ اپنے شاہ صاحب، صرف ٹریول اور ٹورزم کے شعبہ میں نہیں، سیاست میں بھی نامی گرامی ہیں۔ آپ نے پیپلز پارٹی میں جو نام و مقام پیدا کیا، قومی وطن پارٹی میں جا کر وہ نام و مقام ہڑپ کیا۔ تحریک انصاف میں گھل مل گئے، تو خاموش ہو گئے۔ یہاں پر لکھ پڑھ، سوچ سمجھ، محنت، کارکن اور ووٹر کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں، صرف پارٹی ٹکٹ لینے کی ضرورت ہے۔ باقی کا کام بس خدا نے اپنے زمینی نائبوں کے ذریعے کرنے ہیں، جس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ہمارے پروفیسر روشن افضل شاہ باچا کے متعلق یوں رقم طراز ہیں: ”باچا جی جہاں جا تے ہیں، تو پالک اور سرسوں کے ساگ، کدو کے پتوں اور عام گھاس کو کاٹ کوٹ کر خوبصورت پیکنگ کرکے اور ڈیسنٹ ہینڈ بیگ میں رکھ کراپنے ساتھ ضرور رکھ کے جاتے ہیں اور جہاں ضرورت سمجھے، وہاں کسی نایاب علاقائی ساگ کے نام پر اہتمام کے ساتھ ”پریزینٹ“ کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اُس کی ”پاداش“ میں ٹراؤٹ فش کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ثوابِ دارین کے لیے دنبے کی قربانی مانگتے ہیں۔“
تجربے کی بات ہے۔ اُن سے کوئی ”بائی دی وے“ پوچھے کہ کام کیا کرتے ہیں؟ جواب دیتے ہیں۔ ”باتیں۔“ بالکل سچ۔ ان باتوں کے سہارے اور اسی زبان پر تکیہ کیے ان کی زندگی کی گاڑی چلتی نہیں، موجزن ہے۔ اب شاہ جی کی باری ہے،سٹیرنگ سنبھالنے کی۔ بازار سے نکل کر دائیں طرف جیسے شموزی پُل کراس کرتے ہیں، تو نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ دریائے سوات جو نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ مدین تک یہ دریا ٹراؤٹ مچھلی کا ٹھکانا ہے، تو وہاں سے شموزو تک ذائقہ دارسواتی مچھلی کا مسکن ہے۔ ہر طرف باغات کی بہار ہے، آڑو،آلوچہ، گندم۔ وادئی سوات میں قابلِ کاشت زمین تو زیادہ ہے، لیکن زیرِ کاشت رقبہ کوئی ڈھائی لاکھ ایکڑ ہے۔ آبادی میں اضافہ، بادو باراں و طوفان، ٹاؤن شپس سکیمز، سڑکیں، سیم و تھور، تقسیم در تقسیم کے سلسلے بہت ساری زمین کھا رہے ہیں۔ اگرچہ ہے زیادہ لیکن کم از کم دس فیصد سالانہ بھی حساب کرلیں، تو بھی خوفناک ہے۔ سیدھی سی حقیقت ہے کہ سات آٹھ سال بعد ہمارے پاس کیچن گارڈننگ تک کو زمین کا کوئی ٹکڑا نہ بچا ہوگا۔ بہت کم رقبہ یعنی ایک لاکھ ایکڑ تک آبپاش اور باقی بارانی ہے۔ آبپاش علاقوں میں سب سے زرخیز یہی زرہ خیلہ، شموزئی کے علاقے ہیں، جہاں مجموعی طور پر خوش حالی بھی زیادہ ہے۔ دِن میں ایک وقت چاول نہ ملے، تو بیویوں تک سے ناراض ہو جاتے ہیں بعض نامراد شوہر۔ پشتو مثل ہے کہ ”د نورو نورہ او د لیونو خو د ڈوڈو ٹپہ یادیگی۔“ سوات کا یہی علاقہ باسمتی چاول کی کوالٹی اور ذائقے کے لحاظ سے اتنا ہی مشہور ہے،جتنااَپر سوات موٹے چاول کے لیے کراچی تک ہے۔ اسی طرح آرگینک پھلوں، جیسے ناشپاتی، بٹنگ، مخرنئی، ماموسئی (علاقائی نام) وغیرہ کئی دیسی اقسام، جو اپنے اِرد گرد کھادوں اور کیمیکل سپرے کے بھرمار کے باوجود استقلال و ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے ساتھ کئی ادویائی جڑی بوٹیاں ہیں جن کی پیداوار بڑھا کر گلوبل وِلج کے چکر اور جکڑ میں ایک بڑا مقام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ بس تعارف، تیاری اور مناسب پروٹوکولز پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
سُنیں جی، فی زمانہ یہ روایت دَم توڑ رہی ہے، لیکن شموزئی میں حجرے اب بھی زندہ ہیں۔ گاؤں خزانہ میں 250 سال پرانا حجرہ اب بھی، اُسی رنگ ڈھنگ میں اپنے پاؤں پر کھڑا، ہم جیسوں کی عمروں کا مذاق اُڑا رہا ہے۔محلہ دار یہاں ویسے بھی مل بیٹھتے ہیں اور سماجی تقریبات و ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت بھی کرتے ہیں۔
بیرون سے عمارتیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ چکدرہ یونیورسٹی میں اب جان پڑ گئی ہے۔ سوات والی تو اب بھی مانگے تانگے کی عماتوں میں خانہ پری کر رہی ہے۔ تعلیم میں خانہ پری کرنااور بچوں کے قیمتی وقت کا ضیاع کرنا، جرم کیوں نہیں؟ یہ چھوڑ، اب تو اپنی جزاک اللہ وزیراعلیٰ کو پُرانے منصوبوں کی دوبارہ افتتاحی تقریبات کروانے کی لت پڑ گئی ہے۔ یہ ”اتنے بڑے“ اتنے چھوٹے کیوں ہو جاتے ہیں۔ یا پھر خدا عام لوگوں کو دکھانا چاہتا ہے کہ یہ ہمیں نظر آنے والے بڑے دراصل کتنے چھوٹے ہیں!
اُدھر چکدرہ میں ڈاکٹر وارث خان صاحب چشم براہ ہیں۔ اور اِدھر شاہ صاحب ہیں، جب بھی چکدرہ بازارسے گزرتے ہیں، تو ایک گلی میں مشہور حکیم صاحب کے دواخانے سے تھوڑے سے فاصلے پر گاڑی کھڑی کرکے وہاں تنِ تنہا ضرور گھستے ہیں۔ حکیم صاحب اُن کے ایک عرصہ سے دوست ہیں۔ یہ بات بیان کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ پڑھنے والوں کو بھی پتا چلے کہ یہاں پر بڑے پائے کے حکیم موجود ہیں، جن کی شاہ صاحب سے دوستی ہے۔ پیٹ پوجا کا وقت ہوتا ہے، جب ہمیں ڈاکٹر وارث خان ایک ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔