فضل مولا زاہد
ڈاکٹر وارث خان نے پشاور یونیورسٹی سے اردو لٹریچرمیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے۔ تھانے کے کالج میں پڑھاتے ہیں۔ عظیم مادرِ علمی جامعہئ پشاور کے شعبہئ اردو کے ایلومنائی کے صدر بھی ہیں۔ پورا گھرانا میڈیسن کے شعبے میں سپیشلسٹ افراد کا ملغوبہ ہے۔ ہم جب بھی یہاں سے گزرتے ہیں، اُن سے ضرور ملتے ہیں۔ وہ کسی خوبصورت مقام کی سیر کراتے ہیں۔ خوب کھلاتے پلاتے ہیں اور باتوں کواپنے علم کی بھٹی میں تپا تپا کر جس حسنِ بیان کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں، تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا کمال نہیں، یہاں کے اکثر لوگ ایسے ہیں۔ تھانہ ہمارے بڑوں کا، جرگوں کا، علم کا، محفلوں کا اور دوستیوں کا تسلیم شدہ مرکز ہے۔ یہ وادئی سوات کا گیٹ وے بھی ہے۔ یہ ہمارے ڈاکٹرقاضی حنیف صاحب کا مسکن بھی ہے۔ گاؤں گُنیار کے قاضی صاحب تو کب کا نیوزی لینڈ میں بسیرا کیے ہوئے تھے، اور وہاں کے سائنس دانوں کی برادری میں اپنا نام اور پہچان بنا چکے تھے۔ ہمارے سابق فوجی گورنر فضلِ حق اُن کو واپس لے آئے۔ وفاقی وزارتِ خوراک و زراعت، اسلام آباد میں اہم ذمہ داریاں دیں، لیکن اُن کی شرافت یہاں کی ذلالتوں کے سونامی کے سامنے کہاں ٹھہر سکتی تھی، سو بھاری دل کے ساتھ وہ یہاں سے واپس کوچ کر گئے اور اب وہی پر ضعیفی کی لیکن پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی جس مسجد میں حالیہ دہشت گردی کا واقعہ ہوا، اُس کی تعمیر میں قاضی صاحب نے ”لیڈنگ رول“ ادا کیا تھا۔ تھانہ کے کئی افسر محکمہئ زراعت کے ڈائریکٹر جنرلز کے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور چشمِ بددور، تعلیم کے میدان میں تو تھانے کا نام پورے صوبے میں ٹاپ پر ہے۔
چکدرہ اب این سی پی گاڑیوں کے بارگین سنٹرز، ڈرائی فروٹس، نرسریز، شادی ہالز اور وسیع و عریض ریسٹورنٹس کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ 2010ء کے سیلاب سے پہلے یہاں کی زمینوں کے جو سلسلے چاول کی لہلہاتی فصلوں سے جھوم اُٹھتے اور اُس کی خوشبوئیں چہارسو پھیل جاتی تھیں، وہ کھیتی باڑی اب گئی ہے بھاڑ میں۔ یہ صرف سات آٹھ سال کی بات ہے۔
آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا
اسی لیے تو وارث خان کہتے ہیں کہ لوگ ”گلوبل وارمنگ“ کی بات کرتے ہیں، تو بے شک کرتے رہیں، ہمیں ”لوکل وارمنگ“ کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ کھانے پر ایک طویل ”حال احوالی نشست“ کے بعد وارث خان صاحب کی معیت میں ڈاکٹر انعام خان سے ملنے حصار طوطہ کان کی طرف چل پڑتے ہیں۔ انعام خان ایک عرصے کے دوست نہیں، برخوردار کی طرح ہیں۔ ”محکمہ زرعی توسیع ضلع صوابی“ کے ڈائریکٹر ہیں۔ بیس سال بعد اُن سے ملنے کی سبیل نکل آئی ہے۔ بٹ خیلہ سے گزرتے ہوئے دریائے سوات کا چہرہ بڑا میلا کچیلا ہو جاتا ہے۔ پورے بازار کا کچرا گھر بنا یہ دریا کافی گند اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ کچھ آگے لے کر چلتا ہے۔ کچھ اپنے کونوں کھدروں میں چھپا لیتا ہے۔ یہی پر یہ ”دریا دِل“دریا دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک حصہ گورے خان بہادروں کے بنائے ہوئے دو کلومیٹر لمبے ٹنل میں شرافت سے روپوش ہو کر درگئی میں دھمال ڈالتا ہے۔ بجلی بھی پیدا کرتا ہے اور نہروں کی صورت میں وسیع زمینوں کی آبپاشی کاذریعہ بھی بنتا ہے، تب گورے یہ کام نہ کرچکیہوتے، تو آج شاید ہم سب مع اہل و عیال پنجاب میں بوٹ شائننگ، ڈِش واشنگ اور سیکورٹی سپیشلسٹ یعنی ”چوکیداری“ کے شعبے میں نام کما کرامیگریشن بھی کر چکے ہوتے۔ یقین نہ آئے، تو کوئی اِس ٹنل کو پھرسے بند کرکے دیکھے۔ سوچیں، تو اِن گورے شاطروں نے بڑے باسہولت روزگاروں اور امیگریشن کے حصول سے ہمیں محروم نہیں کیا، یہ ٹنل بنا کر؟ سالے کہیں کے……!
ہاں، اوردوسرا حصہ بٹ خیلہ سے نکل کر حصار طوطہ کان سے ہوتا ہوا، ضلع ملاکنڈ کی بھولی بسری ”بوساق“ نامی بستی تک ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں آبادی اور دریا کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جیسے کسی ”آرکی ٹیکٹ“ نے بڑے پیار و محبت اورمحنت و تدبرسے انسان، حیوان اور پانی کا رشتہ ایک ماڈل کے طور پر جوڑ دیا ہو۔ ایک سرسبز پہاڑی کے دامن میں آبادی اور اُس کے سامنے دوسر ی پہاڑی کے دامن میں بہتا ہوا دریا۔ اپنی مرضی پر چھوڑدے کوئی، تو ہم اِسی دریا کنارے کوئی چھابڑی لگالیں د ریائے سوات کی گرما گرم فرائیڈ مچھلیاں فروخت کرنے کو، سیاحوں کو گائیڈنس فراہم کرنے کو اور رہنے سہنے کو۔ چچا غالبؔ کے بقول
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
طوطہ کان میں انعام خان کے ساتھ خوب گپ شپ ہوتی ہے۔ اب تو ہماری باتوں کا وہ انداز بدل چکا ہے۔ وہ ہمیں اَسرار خان سے ملاتے ہیں۔ عمر کے پچاس کے پیٹے میں لگنے والے اَسرار، گاؤں کے سکول میں پڑھاتے ہیں۔ اُس کی بیماری کی کہانی سُنانے بیٹھ جائیں، تو کتابیں بھر جائیں۔ گلے کا مسئلہ ڈاکٹروں نے اتنا پیچیدہ بنا یا کہ علاج کرتا کرتا ”یک نہ شد دو شد“ والا معاملہ ہوگیا۔ بیماری سمیت قرضوں کے تالاب میں بھی ڈوب گیا۔ 2002ء میں گلے کا آپریشن کرواکے اسے ”وُوکل کارڈز“ سے محروم کروایا گیا۔ سانس کی نالی کی کاٹ کوٹ کرواکے پھر گردن میں سوراخ کرواکے وہی پر منسلک کروایا گیا، اُس نالی کو۔ 16, 17 سال گزرنے کو ہیں۔ اب وہ جسمانی لاغری میں مضبوط حوصلے کا امتحان کیسے دیتا پھرتا ہے، جی داری کی زندگی کیسے گزار تا پھرتاہے اور ایک آلے کے ذریعے اپنا مافی الضمیرکیسے بیان کرتا پھرتا ہے؟ کوئی جاننا چاہے، تو ان سے مل کر جانے، پڑھ کر اس کا اندازہ کیا لگے گا؟
انعام اور اَسرار کی مٹھاس آمیز صحبت کو الوداع کہنا پڑتا ہے کہ آگے بھی صرف جانیاں آنیاں نہیں، وقت بھی گزارنا ہے اور واپس بھی پہنچنا ہے اپنے گھروں کو۔ سو وہاں سے نکل کر جلدی میں حصار بابا کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ اس سے اگلا مرحلہ وادئی بوساق کا شروع ہوگا، جو اس سفر کا نقطہئ انجام ہے۔ لگے ہاتھوں پہلے ذرا بات حصار بابا کی ہو جائے۔
حصار بابا ملاکنڈ ڈویژن میں تو ہے ہی، مگر پورے پختون ریجن میں اِس مزار میں مدفون ہستی کی ایک الگ پہچان ہے۔ کہتے ہیں بڑی شفا تھی آپ کے دَم میں، جب آپ زندہ تھے۔ دور دور سے لوگ یہاں تشریف لاتے اور شفا پاتے۔ بات ہے عقیدے کی۔ کینسر کے مریضوں کے لیے تو کبھی اس کی شہرت شوکت خانم ہسپتال سے بھی بڑھ کر تھی۔ یہ ہم نہیں یہاں کے لوگ کہتے پھرتے ہیں۔ وفات پائے تو روضہ مبارک پر تانتا بندھ گیا۔آس پاس ”فوڈ سٹریٹ“ بن گیا۔ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں، تو یاد پڑتا ہے کہ ہم اپنی ماں کی معیت میں آج سے کوئی پچاس برس قبل یہاں قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔ اب تو وقت بڑا ترقی لے کے آیا ہے۔ مزار کو ماضی کی نظر سے حال میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ٹیلی پیتھی کی مدد سے۔ ماں کی معیت میں ایک تھکے سے ماندھے سے فورڈ ویگن سے اُترتے ہیں، پیدل چلتے ہیں، تنگ سی ٹیڑھی میڑھی سی راہ پر۔ یہاں تک کہ راستے میں جنگلی زیتون کا ایک بڑا جنگل آ جاتا ہے، جہاں ڈھیر ساری بے ترتیب سی قبریں ہیں۔ راستے میں کئی لوگ گلے سے ٹرے لٹکائے ہوئے پھرتے ہیں، جس میں مونگ پھلیاں، چنے، گنڈیریاں، پکوڑے اور نہ جانے اور کیا کیا چیزیں رکھے فروخت کرتے ہیں۔ ملنگوں کا گینگ آس پاس، ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف خواتین کی ٹولیاں در ٹولیاں آ جا رہیں، ہر دو جانب۔ ذہن کو مزید پریشر ائز کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ جنگل میں ایک کچی چاردیواری کے اندر خواتین کی بڑی رونق لگی ہے۔ دیواروں میں بنے سوراخوں میں لوگ ٹیڑھے میڑھے ہوئے اندر جھانکتے ہیں۔ ہر بندے کے ہاتھ جڑے ہوئے اوپر اور ہونٹ حرکت میں ہیں۔
(جاری ہے)
ایک اور حالہ دئی (تیسرا حصہ)
