حضرت علی
قارئین، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہہمارے جنگلات تب گھنے تھے جب ”محکمہ جنگلات“ نہیں تھا۔ سوات میں مذکورہ محکمے کے آتے ہی ہمارے جنگلوں کو گویا دیمک لگ گئی۔ درختوں کو کاٹنے کا عمل جاری رہا اور اس کے بدلے میں شجرکاری سے پہلو تہی کی گئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے اور اپنی بے پناہ قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے یہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بدیں وجہ ملکی اور غیرملکی سیاح سیر و تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یوں ہزاروں افراد کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ لیکن بد قسمتی سے سوات کی خوبصورتی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں جنگلات بے درددی سے کاٹے جا رہے ہیں، جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور حدت کا ہمیں سامنا ہے۔
قارئین، دوستوں کے ساتھ گروپ کی شکل میں ہم اکثر پہاڑی اور خوبصورت مقامات کی سیر پر جاتے ہیں۔ وہاں کچھ لمحے گزار تے ہیں اور وہاں کے حسین مناظر کیمروں کی آنکھ سے محفوظ کرکے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یوں سیاحوں کو سوات کی جانب راغب کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں ہم خوبصورت اور دلکش مناظر کی عکاسی کرتے ہیں، تو وہاں ہمیں ایسے مناظر بھی ملتے ہیں جو ہمارے ماحول کی تباہی اور یہاں کی خوبصورتی ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پچھلے دنوں مرغزار سے براستہ جوزو سر بونیر پیر بابا تک ہائیک کا موقعہ ملا۔ سفر کے دوران میں ہم نے سرسبز ماحول، دلوں کو تازگی بخشنے والی ہوا، چشموں کے میٹھے پانی اور چھوٹی چھوٹی آبشاروں سے ندی کی شکل اختیار کرنے والے پانی سے ہم نے خوب مزا لیا۔ سفر کے اختتام پر پیر بابا بونیر سائیڈ پر جنگلات کی بے دریغ کٹائی دیکھ کر ہائیک کا لطف کرکرا ہوا۔ اس سے دو دن بعد سوات کے ایک اور پُرفضا مقام گبین جبہ جانا ہوا، تو لالکو کے مقام پر روڈ پر جاری کام کے دوران میں جب کھدائی کی گئی، تو زمین میں چھپائے گئے ہزاروں پودے ملے، جن پر مٹی ڈال کر انہیں وہاں چھپایا گیا تھا۔ یہ شائد ”بلین ٹری سونامی“ کا حصہ تھے، جنہیں سر اٹھانے سے پہلے ہی مار دیا گیا۔ اس سے ٹھیک پانچ دن بعدکنڈول جھیل کی سیر کے لیے ہماری ٹیم نکلی، تو وادئی اتروڑ میں لدو بانڈہ کے مقام پر دیار کے قیمتی درختوں کا جو حشر نشر ہم نے دیکھا، وہ چند الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی ہے۔
قارئین، ہمہ وقت موسمی تغیرات اور عالمی حدت کا رونا رویا جاتا ہے، مگر جب کبھی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے حوالہ سے کوئی قلم اٹھاتا ہے، تو ایسی تحاریر کو پرِ کاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔ اگر کسی کو شک ہو، تو تحریر میں ذکر شدہ جگہوں کی تصاویر اور ویڈیوز میرے ساتھ محفوظ پڑی ہیں، کسی بھی وقت شک دور کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محکمہ جنگلات کس درد کی دوا؟
