تصدیق اقبال بابو
میں نے سیکڑوں کالم لکھے ہوں گے، لیکن آج کا کالم لکھتے ہوئے دل بڑا دکھی اور بوجھل سا ہے۔ جب دل ہی جکڑا ہو، تو دماغ بھی صحیح کام نہیں کرتا اور ظاہر سی بات ہے نوکِ قلم پہ وہ کچھ نہیں آسکتا جو آپ لکھنا چاہتے ہوں۔ بہر کیف، کچھ یادیں ہیں جو دل کو جکڑے ہوئی ہیں۔ انہیں لکھ کے شائد دل کا بوجھ قدرے کم ہو۔
احمد استاد صاحب سے میری پہلی ملاقات میٹرک کے امتحان کے بعد ہوئی۔ ہوا یوں کہ 1985ء میں ضیائی مار شل لا کا دور تھا۔ ہمارے امتحانی ہال میں چند فوجی جوان گھس آئے۔ اُن دنوں نقل کا وہ تصور نہیں تھا جو آج کل ہے۔ وردی والے بھائیوں نے کسی کو بات کرتے، کسی کو پیچھے دیکھتے، کسی کو کان کھجاتے پکڑلیا اور امتحانی ہال سے نکال باہر کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ بیالوجی کا پرچہ تھا۔ ہم بیالوجی اردو میں لکھا کرتے تھے۔ اُن دنوں اردو کے بعد یہ میرا پسندیدہ مضمون بھی تھا، لیکن پنجاب رجمنٹ والے آفیسر کی ٹوپی کو آنکھ اُٹھا کے دیکھنے کی پاداش میں مجھے بھی تھپڑ مار کر ہال سے باہر نکال دیا گیا۔ جب میں باہر نکلا، تو گورنمنٹ ہائی سکول گلی باغ کے باہر نکالے جانے والے طلبہ میں، مَیں سولہواں کھلاڑی تھا۔ ہم سبھی ایک ایک دو دو تھپڑ کھاچکے تھے۔ جب رزلٹ آیا، تو گزٹ بک میں ہمارے ناموں کے آگے ”یو ایف ایم“ لکھا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ پشاور میں "Hearing Committee” کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اُن دنوں احمد استاد صاحب کے نام کا توتی ٹائیں ٹائیں کیا کرتا تھا۔ اساتذہ اور والدین نے مشاورت کی کہ پشاور بورڈ کے کنٹرولر حبیب اللہ چوں کہ استاد صاحب کے دوست ہیں، لہٰذا اُن کی سفارش دلوائی جائے۔ القصہ، اگلے روز ہم (سولہ گنہگار) احمد استاد صاحب کی سربراہی میں پشاور تشریف لے جارہے تھے۔ ہمیں کم سے کم ”پرچہ فیل“ کی سزا سنائی گئی (جسے بعد میں ہم نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔) یہ تھی ہماری احمد استاد صاحب سے پہلی ملاقات۔
احمد استاد صاحب 1940ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے آباؤ اجداد باجوڑ سے سوات آئے تھے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ بزرگ ٹھیکے پہ کھیتی باڑی (اجارہ) کیا کرتے تھے۔ والد دوچار حرف پڑھے ہوئے تھے، لہٰذا ریاستی دور میں مرزا بن گئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو آٹھویں تک چارباغ میں پڑھایا۔ میٹرک کے لیے ودودیہ گئے۔ اُن دنوں چارباغ سے مینگورہ تک پیدل جانا پڑتا یا کبھی کبھار تانگہ مل جایا کرتا۔ میٹرک کے بعد والئی سوات کے دربار میں حاضری دی۔ آپ قطار میں کھڑے تھے۔ والی صاحب آئے اُن کے باپ دادا کا پوچھا اور کھڑے کھڑے اُنہیں اُستاد بنا دیا۔ آپ مارتونگ چکیسر میں ڈی ایم استاد لگ گئے۔ پھر پرائیویٹ ایف اے، بی اے اور بی ایڈ کیا، تو”ایس ای ٹی“ بن کر ڈیرہ اسماعیل خان چلے گئے۔ اگلے سال سوات تبادلہ ہوگیا۔ یوں احمد صاحب سترہ سکیل میں تقی کرکے 2000ء میں ریٹائر ہوئے اور 23 اپریل 2019ء کو وفات پائی۔
جب آپ کا دور عروج پر تھا، تب پشاور بورڈ والوں کے ساتھ آپ کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ گاڑیاں بھر بھر کر پرچہ جات سوات لاتے اور لوگوں میں تقسیم کرتے۔ جہاں مرضی ڈیوٹی کرتے۔ یار دوستوں کی بھی ڈیوٹیاں لگاتے۔ لوگوں کی بھرپور خدمت کرتے۔ آپ بڑے مہمان نواز اور یاروں کے یار تھے۔ آپ نے اِک سنہری دور گزارا۔ آپ میرے والد صاحب کے دوست بھی تھے۔ والد صاحب فوت ہونے سے پہلے مجھے خصوصی طور پر اپنے دوستوں کا خیال رکھنے اور صلہ رحمی کو بر قرار رکھنے کی خاص ہدایت بھی کی تھی۔ گویا احمد استاد صاحب مجھے میرے والد صاحب سے ورثے میں ملے تھے۔ تین دہائیوں تک مَیں نے بھی اُن سے خوب نبھائے رکھی۔ انہوں نے مجھے کچھ راز کی باتیں بھی بتائیں، جن کے میں یہاں ہلکے اشارے ہی دو گا۔ مبادا اُن کی روح نہ تڑپ اُٹھے۔ انہوں نے کئی ایک ڈاکٹروں کے نام لے کر مجھے بتایا کہ ”ان کے کتنے ہی پرچے میں پشاور سے نیفے میں چھپا کر اُن کے گھر لے آتا۔ وہ دوبارہ لکھ کر مجھے دیتے اور میں جاکر بنڈل میں رکھ دیتا۔ آج جب مَیں مینگورہ جانے کے لیے سڑک کے کنارے کھڑا ہوتا ہوں، تو وہی ڈاکٹر اپنی موٹر میں جب میرے قریب آتا ہے، تو منھ پھیر کے گزر جاتا ہے۔ جیسے اُس نے مجھے دیکھا ہی نہیں۔ میرے دل سے اِک سرد ”آہ“ نکلتی ہے۔“
ایسے ہی ایک اور ڈاکٹر کی کہانی بھی انہوں نے مجھے سنائی جو مٹہ سائیڈ کے تھے کہنے لگے: ”وہ سو فی صد میری وجہ سے ایم بی بی ایس بنا۔ جب شادی آئی، تو سوات بھرکے معززین کو کارڈ بھیج کے شادی پہ بلوایا۔ مجھے نہ بلایا۔ میں نے ٹوپی اُٹھا کے زمیں پہ دے ماری اور بد دعا دی کہ ”خدائے دے لیونے کہ“ کچھ عرصہ بعد مٹہ بازار میں لوگوں نے اُسے ننگا پھرتے دیکھا۔“
ایسے کئی ایک واقعات اور راز میرے سینے میں دفن ہیں کہ کس طرح لوگ انجینئر بنے، وکیل بنے، استاد اور پروفیسر بنے۔ خود داری اور انا پرستی تو اُن میں اتنی تھی کہ آج کے معروف سیاست دان انجینئر امیر مقام (زمانہئ طالب علمی میں) چارباغ میں کئی کئی روز تک اُن کی چھوٹی سی بیٹھک میں مہمان رہے۔ میں نے کہا، استاد صاحب! آپ کا ایک ہی بیٹا ہے۔ جو ایم ایس سی پاک سٹڈی ہے اور بے روزگار ہے۔ امیر مقام سے کہو، سرکاری ملازم لگادے گا۔ کہنے لگے، ”اس سے میری خودی مجروح ہوتی ہے۔“ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ استاد صاحب نے ساری زندگی اک قسم کی غربت ہی میں گزاری۔ دو کمروں کا مکان بنایا۔ بچوں کی شادیاں کیں، حج کیا اور بس۔
1975ء سے آپ اوپن یونیورسٹی کے ٹیوٹر بھی رہے۔ میری بھی اُن سے 30 سال سے اوپر کی رفاقت رہی۔ اس دوران کافی نشیب و فراز بھی آئے۔ وہ غصے میں انتہائی تند خو تھے۔ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ معمولی سے معمولی بات پہ بھی آگ بگولا ہوجایا کرتے تھے۔ ایسے میں وہ وہ بغیر لگی لپٹی سناتے کہ الامان والحفیظ۔ اسی غصیلے پن کی وجہ سے گھر والوں کے ساتھ بھی عمر بھر اُن کی اَن بن ہی رہی۔ اُن کا ایک ہی بیٹا ہے محمد پرویز، جو انتہائی ملن سار اور یاروں کا یار بندہ ہے، لیکن مرتے دم تک اُس کے ساتھ بھی کوئی خاص تعلق نہ رکھا۔ بس کبھی کبھار کوئی بات کرلی، تو کرلی ورنہ دونوں ہی منھ لٹکائے اِدھر اُدھر ہوجایا کرتے۔ یہی حال اُن کی زوجہ محترمہ کے ساتھ بھی رہا۔ ہنسی خوشی بات کرنا تو دور کی بات، سیدھے منھ بات کرنا بھی کبھی کبھی ہی نصیب ہوا۔ یہی چڑچڑاپن کلاس میں طلبہ کے ساتھ بھی روا رکھتے۔ ایک دفعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی کسی ورکشاپ میں، مَیں اُن کے ساتھ سپر وائزر تھا۔ آپ میری کلاس میں طلبہ کو کچھ ہدایات دینے آئے۔ سینئر ہونے کے ناتے ایک طالب علم نے اُنہی سے گذارش کی کہ ”سر! مجھے گردے میں پتھری کی شکایت ہے۔ مَیں زیادہ دیر کلاس میں نہیں بیٹھ سکتا۔ مہربانی فرما کر مجھے ایک گھنٹا پہلے چھٹی دے دیا کریں۔“ تب احمد صاحب بھڑک اُٹھے اور کہا: ”دوپہر سے شام تک پکوڑے بیچتے وقت تو تمہاری پتھری میں درد نہیں اُٹھتا۔ اب میری باری میں درد اُٹھنے لگ گیا؟ تشریف رکھے رکھو۔“
اسی طرح ایک اور واقعہ ایسا ہے کہ اوپن یونیورسٹی کی بی ایڈ ورکشاپ میں پہلے دن تعارفی سیشن کے دوران ایک طالب علم پہ نظر پڑی جو اُن کے محلے کا تھا، کہنے لگے:‘”تم فلاں کے بیٹے ہو نا؟“ اُس نے کہا، جی جی! بالکل وہی ہوں۔ آپ کا محلہ دار ہوں۔ تب احمد صاحب بھڑک کر کہنے لگے: ”پچھلے دنوں جب تمہاری شادی تھی اور پورے چارباغ والوں کو تم نے دعوت دے رکھی تھی، مجھے غریب جان کر دعوت نہ دی۔ کان کھول کے سن لو بچو! یہ آج میری خیرات ہے۔“
آپ اصولوں کے پکے تھے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ آپ مرتے دم تک چارباغ کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ اوپن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر، کنٹرول اور وائس چانسلر وغیرہ تک کو مجھ سے چھٹیاں لکھواتے اور بالآخر اپنی تحصیل کے لیے امتحانی ہال، سٹڈی سنٹر اور ورکشاپس وغیرہ کے اجرا جیسے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ابھی کوآرڈی نیٹر کا مسئلہ باقی تھا کہ آپ دنیا ہی سے اُٹھ گئے۔
آخری دنوں میں جب آپ 79سال کے ہوئے۔ تب آپ کافی کمزور ہوچکے تھے۔ اُن کے چہرے کی سرخی اب زردی مائل ہوگئی تھی۔ چہرہ سوکھ کر ہڈیوں سے جا لگا تھا۔ باقی بدن بھی سوکھ کر ہڈیوں کا پنجر بن چکا تھا۔ بس سانس تھی کہ آ جا رہی تھی۔ ایسے میں اُن پہ غشی کے دورے پڑنے لگ گئے۔ بیٹے نے کوئی ڈاکٹر، حکیم، نباض نہ چھوڑا۔ پشاور، سیدو اور ڈاکٹر وقار کے پھیروں پہ پھیرے لگنے لگ گئے۔ لیکن صحت تھی کہ خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ میں ہر دوسرے تیسرے روز پُرسے کے لیے جاتا۔ مجھے دیکھ کر رونے لگ جاتے۔ مجھ سے بھی اُن کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی۔ ٹپ ٹپ میرے بھی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے۔ میں اُن کا ہاتھ چومنے لگ جاتا۔ تسلی کے دو لفظ بھی حلق میں آکر اٹک جاتے۔ میں اُٹھنے لگتا، تو ہاتھ کی گرفت پر زور لگاتے جس کا مطلب ہوتا کہ ابھی بیٹھے رہو۔ جب وہ سوجاتے، تو میں بھاری قدموں سے اُٹھ پڑتا۔
آہ! آج وہ بیٹھے رہنے کا اشارہ کرنے والا میرا دوست، میرا مربی، میرا ساتھی منوں مٹی تلے دفن ہے۔ خدا حافظ میرے استاد، خدا حافظ! تم نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے یہی افسوس ہے کہ اب میں چارباغ کس سے ملنے جایا کروں گا؟ بقول غالب!
عمر بھر کا تونے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے