عصمت علی خان
قارئین، کرپشن کو ناسور اور ملک کی تباہی کہنے والے سیاسی حکمران اور اداروں نے کرپٹ لوگوں کی نشان دہی کے لیے مہمات سمیت نقد انعامات کا اعلان بھی کیا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معلومات دینے والوں کا نام صیغہئ راز میں رکھا جائے گا۔ اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان اداروں میں بیٹھے والے لوگوں کاکام صرف بیٹھنا ہے، یا وہ اپنے فرائض بھی انجام دیں گے؟
اب اگر عام شخص کرپٹ لوگوں کے پیچھے نکلیں گے اور ان کی معلومات فراہم کریں گے، تو وہ افسران یا وہ اہلکار کیا کریں گے جو لاکھوں تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں؟
میرے خیال میں تو یہ نیب، اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کاکام ہونا چاہیے کہ وہ خود معلومات اور تحقیقات کریں کہ ایک عام یا خاص آدمی کے پاس اتنا مال اور جائیداد کہاں سے آئی، اس کا کاروبار کیا ہے اور اتنی کمائی کیسے ہوئی؟
قارئین، سوات ہی کی مثال لے لیں، یہاں پر بھی ان اداروں کے دفاتر اور اہلکار موجود ہیں جو کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کام کرتے ہیں، لیکن میری یاد میں نہیں ہے کہ اب تک کسی کو پکڑا گیا ہو، یا کسی کے خلاف برائے نام کارروائی ہی کی گئی ہو۔ میرے خیال میں یہ حساب لگانا اتنا مشکل نہیں ہوگا ان اداروں کے لیے۔ اگر دس سے پندرہ سال پیچھے جاکر نظر دوڑائی جائے اور لوگوں کو دیکھا جائے، جن میں سیاسی لوگوں سے لے کر ہر شعبہ اور طبقہئ فکر کے لوگوں کا سروے کیا جائے اور پھر ان کی ماہوار تنخواہ یا دیگر طریقے سے جمع کی گئی رقوم کی تحقیقات کی جائیں، تو ڈھیر سارے سوالات اور اس کے جوابات سامنے آنے سمیت کرپٹ اور شریف کی پہچان دودھ اور پانی جیسا ہوجائے گی۔ کل تک پیدل چلنے والوں کے پاس آج اگر بڑی بڑی گاڑیاں موجود ہیں، تو وہ ادارے معلوم کرلیں کہ یہ کہاں سے اور کیسے آئی ہیں؟ یا یہ بھی ووٹ دینے کی طرح عام عوام نے بتانا ہے کہ فلاں شخص کل پیدل تھا، آج گاڑی میں گھوم رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعبوں کے بڑوں کی بھی تحقیقات ان کا کام ہے جو اس کے لیے مقرر ہیں اور سرکاری خزانے سے موٹی تنخواہیں لیتے ہیں۔ چاہیے کہ اداروں کو مضبوط کرکے ان کو ان کا کام سمجھایا جائے اور جو لوگ کام نہیں کرتے، ان کو گھر بھیجا جائے۔ تب کہیں جاکر نظام ٹھیک ہوگا، اور کرپٹ لوگوں کا خاتمہ بھی ہوگا۔ عام لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے سے نظام ٹھیک نہیں ہوا کرتے۔ہر کسی کا احتساب کیا جائے، اور اس کا کل اور آج دیکھا جائے۔ ممبرانِ اسمبلی سے لے کر اداروں اور شخصی اداروں میں موجود ہر شخص اور شعبے کی تحقیقات کی جائیں۔ اس طرح ”دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہ جائے گا۔
کیا سارے کام عوام نے کرنے ہیں؟
