مہروز خان عیسیٰ خیل
پچھلے دنوں میں عشا کی نماز پڑھنے کے لیے اپنے ایک محلے دار کے ساتھ مسجد جا رہا تھا۔ ہم دونوں سڑک کے کنارے جارہے تھے اور آپس میں محوِ گفتگو تھے۔ ہم نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ مخالف سمت سے ایک موٹر سائیکل تیز رفتاری کے ساتھ ہمارے قریب سے گزری۔ اسی اثنا میں ایک زور دار ٹکر کی آواز ہمیں سنائی دی۔ ہم نے پیچھے پلٹ کر دیکھا، توموٹر سائیکل پر سوار تینوں نوجوان یکے بعد دیگرے سڑک پر منھ کے بل گر پڑے اور اُن کی موٹر سائیکل ایکسیلریٹر کی تیز آواز کے ساتھ دور جاکر اُلٹ گئی۔ یہ حادثہ دیکھتے ہی میرے منھ سے بے اختیار چیخ نکلی اور میں حواس باختہ ہوگیا۔ ہم جب دوڑ کر زخمیوں کے قریب پہنچے، تومیں نے دیکھا کہ اُن زخمیوں میں سب سے کم عمر نوجوان کے سر سے خون فوارے کی طرح نکل رہا تھا، جب کہ باقی دو بے ہوشی کی حالت میں اوندھے منھ سڑک پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں چکرا گیا۔ البتہ سامنے سے آنے والی ایک کار جس میں ادھیڑ عمر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، اشارے کی مدد سے میں نے انہیں زخمیوں کو اُٹھانے کا کہا۔ اُس نے بھی یہ دل خراش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لہٰذا وہ بھی ساکت و جامد کھڑا رہا۔ کیوں کہ اس میں بھی میری طرح زخمیوں کو اٹھانے کی سکت باقی نہ تھی۔
اسی دوران میں میرے محلے دار سمیت علاقے کے لوگوں نے زخمیوں کو سوزوکی میں ڈال کر ہسپتال روانہ کیا۔ اس وقت میری آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے اور مجھے شدت کے ساتھ نوجوانوں کے والدین کی فکر کھائی جارہی تھی۔ اللہ جانتا ہے کہ کس طرح میں نے عشا کی نماز پڑھی اور کس بے دلی سے صرف اپنے گھر والوں کی خاطر چند نوالے کھائے۔ ایک آدھ گھنٹے بعد خبر ملی کہ ان نوجوانوں میں ایک کی حالت تشویش ناک ہے جب کہ باقی دو خطرے سے باہر ہیں۔ میں نے دل سے ان کی مکمل صحت یابی کی دعا تو کی، لیکن میری بے چینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
اس واقعے سے چند دن پیشتر دوسرا حادثہ ایک بارہ تیرہ سالہ نوخیز جوان کو پیش آیا تھا۔ اس نوجوان نے اپنے والد صاحب کی اجازت کے بغیر موٹر سائیکل گھر سے باہر نکالی اور سیدھا بڑی سڑک کا رُخ کیا۔ وہ موٹر سائیکل چلانے میں زیادہ ماہر نہیں تھا۔ اپنی نا سمجھی کی وجہ سے اُس نے موٹر سائیکل تیز چلانے کی کوشش کی، جس کے باعث وہ موٹر سائیکل پر قابو نہ رکھ سکا اور موٹر سائیکل سمیت ایک گہری کھائی میں جا گرا۔ کافی دیر کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے۔ جائے وقوعہ پہ پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ نوجوان کی لاش درخت کی ایک شاخ سے لٹک رہی تھی اور خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس المناک واقعے کے بارے میں سن کر والدین پر سکتہ طاری ہوگیا تھا۔ ویسے بھی نوجوان اولاد کی موت کا صدمہ برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ دُکھ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو اس اذیت ناک صدمے سے گزرا ہو۔
ان دو واقعات کو تحریر کرنے کا مقصد کسی کو غم زدہ کرنا نہیں بلکہ میرا مقصد کم عمر لڑکوں کے غیر ذمہ دارانہ موٹر سائیکل چلانے سے ہے کہ کس طرح یہ نوجوان نسل ون وہیل ڈرائیونگ، دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش اور آپس میں تیز رفتاری کا مقابلہ کرکے اپنی قیمتی زندگی داؤ پر لگا کر ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو ذرا بھر بھی اپنے والدین کا خیال نہیں ہوتا۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کتنی مشکلوں سے والدین اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ اس اُمید پر کہ اُن کی یہ اولاد بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے گی۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کی لاپروا اولاد جوانی میں ہی داغِ مفارقت دے کر ساری زندگی کے لیے انہیں غمگین چھوڑ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گی۔ والدین کی آنکھوں میں اپنی اولاد کے لیے جو سہانے خواب ہوتے ہیں، وہ لمحہ بھر میں چکنا چور ہوجاتے ہیں۔
ان حادثات میں خوش قسمتی سے جو نوجوان بچ جاتے ہیں، وہ جسمانی معذوری کے سبب اپنے گھر والوں اور معاشرے پر بوجھ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ اس طرح کے حادثات میں زیادہ تر والدین کی اکلوتی اولاد ہوتی ہے۔ وہ اولاد جن سے والدین کی بہت ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اربابِ اختیار اس سنگین صورت حال پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر رہے، جس کی بنا پرنوجوان موٹر سائیکل چلانے والوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ ایک آدھ جگہ پر ٹریفک پولیس کم سن لڑکوں کو چالان تھما تو دیتے ہیں، لیکن یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس کا مستقل حل نکالا جائے اور اٹھارا سال سے کم عمر کے لڑکوں پر موٹر سائیکل سمیت دیگر گاڑیوں کے چلانے کے حوالہ سے مستقل پابندی عائد کی جائے۔ نیز موٹر سائیکل ریس پر قانون کے مطابق دفعہ نافذ کیا جائے۔ اگر ممکن ہو، تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک جامع تشہیر کے ذریعے عام لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اس طرح اس سنگین مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اُمیدہے کہ اربابِ اختیار اس مسئلے کا فوری حل نکالنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر سائیکل کی تباہ کاریاں
