روح الامین نایاب
قارئین کرام! موجودہ مادی دنیا میں اجتماعی سوچ کا فقدان ہے، ہر ایک اپنی ذاتی سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اب تو انتہا یہ ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے اجتماعی مفاد کو بڑی آسانی سے پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ بس میرا فائدہ ہوجائے اگر ہزاروں کا نقصان ہوجاتا ہے، تو کوئی بات نہیں۔ کیوں کہ احساسِ ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ کسی کو بھی بہ حیثیتِ پاکستانی یا ملکی باشندہ کے قومی مفاد کا احساس ہی نہیں اور یہ سلسلہ اوپر سے نیچے تک چلا آرہا ہے۔ ملکِ عزیز کے حکمرانوں نے اپنی کرسی اور اقتدار کو بچانے کی خاطر ملکی مفاد کو داؤ پر لگانے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ ایسے حالات میں اگر کہیں چھوٹا سا واقعہ بھی ملکی مفاد کے لیے ہوجائے، تو خوشی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی ہوجاتی ہے۔
اب جو واقعہ مَیں بیان کرنے لگا ہوں، یہ نواز شریف کڈنی ہسپتال منگلور کی انتظامیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس ہسپتال کی انتظامیہ ڈاکٹر غلام رحمانی ایم ایس کی سرکردگی میں ایک عرصے سے بڑی محنت، خلوص اور جاں فشانی سے عوام کی خدمت کررہی ہے۔ اس کے تمام ڈاکٹر محنتی اور ملنسار ہیں۔ انتظامی معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ انتظامیہ کو مختلف حوالوں سے اکثر فنڈ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے نازک حالات میں ڈاکٹروں نے اپنی ذاتی جیب سے پیسے لگا کر مریضوں کی ضروریات کو پورا کردیا ہے۔ بازاروں میں مخیر حضرات سے چندے جمع کیے ہیں، لیکن کام کا سلسلہ رُکا نہیں ہے۔
کئی بار بجلی اور گیس کے بل شارٹ ہوگئے ہیں۔ بعض آپریشنوں کے لیے ضروری لوازمات ختم ہوگئے ہیں، لیکن آفرین ہے غلام رحمانی صاحب اور اُس کے عملے پر کہ کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اب میں آپ کی توجہ نواز شریف کڈنی ہسپتال کے عملے کی ایک خاص کارنامے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصے پہلے ایکسرے کی مد میں حکومت نے چھے لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا۔ یہ چھے لاکھ 43 روز میں ختم ہوگئے۔ ایکسرے نکالنے کے لیے جو ”ایکسرے فلم“ آتی ہے، اور اُس پر جسم کے کسی حصے کا ایکسرے نیگٹو کی صورت میں ایک ہارڈ پیپر پر سامنے آتا ہے، تو ایک ایکسرے پر 148روپے خرچہ آتا ہے۔ اس طرح سٹی سکین پر 555 روپے خرچہ آتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ اس کے لیے چھے لاکھ روپے کا بجٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس نے ختم ہونا تھا اور ختم ہوگیا، لیکن دوسری جانب بے چارے غریب مریض پریشان ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ باہر پرائیویٹ لیبارٹریوں میں ایکسرے تقریباً چار سو روپے اور سٹی سکین تین ہزار روپے کا آتا ہے۔ اس مسئلے نے ڈاکٹروں کو پریشان کررکھا تھا۔ لہٰذا بہت سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر سلیم اللہ صاحب نے ایک نیا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے عام گلیسی کاغذ کو ایکسرے کے لیے استعمال کیا، اور پرنٹ کو ایک مخصوص پرنٹر سے نکالا جو کباڑ میں اکیس ہزار میں خریدا گیا تھا، جب تجربہ کامیاب ہوا،تو پھر نیا پرنٹر مشین تریالیس ہزار میں خریدا گیا۔ جب میں نے اپنے سینے کا ایکسرے دیکھ لیا، تو بہت صاف اور روشن نظر آرہا تھا۔ مَیں حیران ہوا اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لیا کہ یہ کیا ہے؟ یہ تو پہلے کالا سیاہ سخت قسم کا کاغذ ہوتا تھا جس کو واضح اور صاف طور پر دیکھنے کے لیے ڈاکٹر حضرات “Uaminatoz X-ray” کا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب موجودہ ایکسرے کے لیے اُس گلاس کی ضرورت نہیں رہی۔ دلچسپ اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب ایک ایکسرے نکالنے پر 148 روپے کے بجائے زیادہ سے زیادہ 5 روپے خرچہ آئے گا اور سٹی سکین پر پندرہ روپے خرچ ہوں گے۔
قارئین کرام! یہ محاورہ تو ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے!“ لیکن آج اس کا عملی مظاہرہ نواز شریف کڈنی ہسپتال کے ڈاکٹر سلیم اللہ خان نے کرکے دکھایا۔ بلاشبہ کوئی بھی کارنامہ، جیت یا فتح اکیلا ایک انسان حاصل نہیں کرسکتا، جب تک کہ پورے متعلقہ لوگوں یا سٹاف اور عملے کا بھرپور تعاون نہ ہو۔ اس لحاظ سے نواز شریف کڈنی ہسپتال کا پورا عملہ اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ غلام رحمانی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مَیں اس کارنامے پر پورے عملے کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور سلام کرتا ہوں۔ اگر ایمان داری سے حساب لگایا جائے، تو اس طرح کم خرچ پر ایکسرے اور سٹی سکین بنانے پر اربوں کی بچت سرکاری خزانے کو ہوگی، اندازہ لگائیں کہاں فی ایکسرے 148سے کم ہوکر صرف 5روپے اور ایک سٹی سکین 555روپے سے کم ہوکر صرف پندرہ روپے، یہ تو زمین و آسمان کا فرق ہے۔
میں ضلعی انتظامیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہسپتال کا دورہ کرکے متعلقہ عملے کا حوصلہ بڑھائیں۔ سرکاری سطح پر اس کی اطلاع صوبے کے وزیراعلیٰ کو دیں اور وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعظم کے نوٹس میں یہ بات لائیں۔ اس سے وزیراعلیٰ اور صوبے کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوگا۔ سوات کے ڈاکٹروں کا نام روشن ہوگا، سوات جگمگاجائے گا۔ ہم سب کے بلکہ پورے سوات کے سر فخر سے بلند ہوں گے۔ نواز شریف کڈنی ہسپتال کے عملے کو مجموعی طور پر تمغائے امتیاز سے نوازا جائے اور ڈاکٹر سلیم اللہ صاحب کو خصوصی انعام دیا جائے۔ اس سے حوصلہ افزائی ہوگی، دوسرے ڈاکٹر بھی محنت اور جان فشانی سے کام کریں گے۔
مجھے اُمید ہے کہ حکومت اس طرف پوری توجہ دے گی اور اس عظیم کارنامے کو وقت کے گرد کی نذر کرکے نظر انداز نہیں کرے گی، انشاء اللہ!