فضل محمود روخان
عجب خان آفریدی نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا۔ تھوڑا سا مسکرایا اور کہا کہ”اکیہ! آج تم مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو؟ میں تمہیں خوش دکھائی دیتا ہوں؟ کیا میرا رنگ تازہ گلاب جیسا ہے؟ تو حیران نہ ہو۔ آج میں واقعی خوش ہوں۔ کیوں کہ آج مَیں نے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیا۔“
وہ ”ڈیرانے“ کہاں گیا؟ وہ ہم سے آگے آگے جارہا تھا۔ ایک جگہ راستے میں آرام کرنے کے لیے بیٹھ گیا تھا۔ گٹھڑی اس کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔
آگے جاکر عجب خان آفریدی نے اسے جا لیا۔ پہنچتے ہی اس سے کہا کہ گٹھڑی میرے سامنے کھولو۔ جب اس کو کھولا گیا، تو ”ڈیرانے“ ہکا بکا رہ گیا۔ ”میم، فرنگی!“ اس کی بلی کی طرح سبز آنکھیں تھیں۔ یعنی مس ایلس سب کے سامنے تھی۔
سب کی حیرانی کی انتہا نہ تھی۔ دوسری طرف ڈیرانی نے ہنس ہنس کر اپنا بُرا حال کر دیا۔ ”ساتھیو، آؤ! سب دیکھو۔ مَلَک (انگریزوں کا وفادار) کی بیوی کو دیکھو! اور سب ہنس پڑے۔ عجب خان نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا، ”دور ہوجاؤ! یہ کیا بکتے ہو؟ عورت کو مردوں سے ہٹا دو۔“ اور مس ایلس کو عورتوں کے پاس بھیج دیا۔ عجب خان آفریدی نے اپنے گھر والوں کو سختی سے تاکید کی کہ خاتون کا خیال رکھنا اور اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔
سرِ شام جرگہ بلایا گیا۔ آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ شہزادہ جرگے میں خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ”شہزادہ“ عجب خان کا چھوٹا بھائی تھا۔ عجب خان بے فکری کے عالم میں زمین پر لکیر کھینچتا رہا۔ شہزادہ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انگریز اب ہم سے بدلہ لیں گے۔ وہ اُس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک ہمیں ہر طریقے سے زِچ نہ کریں۔ اگر حالات ہمارے قابو میں نہ رہے، تو ہم آگے کیا کریں گے؟
مسلسل خاموشی کے بعد ایک ساتھی نے کہا کہ انگریز اتنا بے وقوف نہیں ہوگا کہ ایک عورت کے لیے ہماری قوم سے دشمنی مول لے گا۔ ”سحر گل، صحیح کہا تم نے، لیکن ہماری اپنی قوم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انگریزوں سے زیادہ ان کے وفادار ہیں۔ تیراہ کے خان، خوانین اور ملک ہمارے لیے انگریزوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔“ عجب خان آفریدی نے کہا۔
ڈیرانی نے یہ سنتے ہی کہا کہ اگر ایسا ہے، تو ہمیں انگریزوں سے پہلے ان خان، خوانین اور ملکوں کا صفایا کرنا چاہیے۔
”ڈیرانی! بچوں جیسی باتیں نہ کرو۔“ ایک سفید ریش بزرگ نے ٹکڑا لگاتے ہوئے کہا: ”جب اونٹ پالنا ہو، تو دروازے لمبے رکھنا پڑتے ہیں۔ ایک ہی چھلانگ سے کوئی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا کرتا۔ اگر میری بات مانو گے، تو ہم دشمن کے سامنے بے عزت نہیں ہوں گے۔“
عجب خان آفریدی مسکرایا اور کہا: ”جی ماموں، ہم تو اس غرض کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی حل نکل آئے۔“
سفید ریش بزرگ نے کہا: ”ہمیں خان، خوانین اور ملکوں کے ہر حجرے میں اپنا آدمی رکھنا ہوگا، تاکہ وہ ہمیں پل پل کی خبر دے۔“ یہ بات سب کو بھا گئی اور اس پر فوری عمل کا کہا گیا۔
چند دنوں کے بعد خبر آگئی کہ کوہاٹ سے ایک انگریز فی میل ڈاکٹر، خان بہادر، عبدالصمد خان اور رسالدار مغل باز کے ہمراہ خانکی بازار کی طرف روانہ ہوئی ہے۔ تاکہ وہ لاپتا خاتون (مِس ایلس) کا پتا لگاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ”کربوغے ملا“ اور اس کے بیٹے سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔
اگلے جمعہ کے خطبے میں کربوغے ملا نے خطبہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جس نے بھی یہ شرمناک قدم اُٹھایا ہے، وہ سخت گناہ گار ہے۔ اُس نے شرع کے خلاف قدم اُٹھایا ہے۔ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔
اس کے جواب میں خانکی بازار کے ملا محمد اخوند زادہ جو انگریزوں کا سخت دشمن تھا، نے خبردار کیا کہ اگر انگریز فی میل ڈاکٹر، رسالدار مغل باز اور عبدالصمد خان نے خانکی بازار میں قدم رکھا، تو وہ زندہ سلامت واپس نہیں جائیں گے۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی کہ اسی اثنا میں مسجد کے ایک کونے سے ایک پشاوری اُٹھا اور ملا صاحب کے پاس چلا گیا۔ یہ آدمی کُرم ایجنسی سے ملا صاحب کی زیارت کے لیے آیا ہوا تھا۔ وہ ساری رات مسجد میں سجدہ ریز رہا۔ ملا صاحب سے کہا کہ قربان جاؤں آپ پر، یہ کیا ماجرا ہے؟ ملا صاحب نے کہا کہ عجب خان آفریدی نامی بوستی خیل نے ایک انگریز میم کو اغوا کیا ہے۔ اور تیراہ کے ملکان ایک دوسری عورت کو اس کی بازیابی کے لیے لارہے ہیں۔
ملا صاحب فرمانے لگے، لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔ اگر ان لوگوں نے خانکی بازار میں قدم رکھا، تو مجھے یقین ہے کہ لوگ انہیں زندہ جانے نہیں دیں گے۔
پشاوری ایک لمحہ سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا: ”میری جاں آپ پر نثار، میم تو عجب خان کے پاس ہے۔ آپ ان پر غصہ کیوں نہیں نکالتے؟“ ملا صاحب سادہ آدمی تھے۔ اس کی چال میں آگئے۔ اُس نے عجب خان کے پاس آدمی بھیجا کہ مس ایلس کو میرے ہاں لے آؤ! عجب خان کے بھائی شہزادہ کو یہ بات پسند نہیں آئی، لیکن عجب خان نے خود ان کی بات مان لی۔ نتیجتاً عورت کو بھیج دیا گیا۔
راوی کہتا ہے کہ جب ہم ملا کے خلوت خانے میں پہنچے، تو وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ورد کر رہا تھا۔ ہمارے آنے پر اس نے تسبیح ہاتھ سے رکھ دی۔ ہمارے ساتھ مصافحہ کیا۔ عجب خان کچھ دیر ملا کے سامنے خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا، ”ملا صاحب ایک ضروری بات آپ سے کہنی ہے۔“
ملا: ”کہو بچے!“
”ہم نے آپ کے آستانے کی لاج رکھی اور خاتون آپ کے در تک لے آئے۔ ہم نے انہیں موج مستی کی غرض سے اغوا نہیں کیا ہے، بلکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزوں نے میری قوم کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ہماری عزتیں محفوظ نہیں رہیں۔ انگریزوں نے ہمارے ساتھیوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ ہم اپنے ہی درہ میں اپنی رہائش گاہ تک نہیں جاسکتے۔ مس ایلس کو اس وقت حوالے کیا جائے گا، جب تک انگریز ہمارے ساتھیوں کو جیلوں سے رہا نہ کرے۔ اس سے یہ وعدہ بھی لینا ہے کہ اسے ہماری آمد و رفت سے کوئی غرض نہیں ہوگی ۔“
ملا نے عجب خان کو یقین دہانی کرائی کہ پہلے ان کی یہ شرائط مانی جائیں گی۔ پھر خاتون کو اس کے حوالے کیا جائے گا۔ عصر کے وقت فی میل ڈاکٹر مع دو خانوں کے خانکی پہنچ گئی۔ ملا صاحب کا پشاوری مرید سب سے پہلے مسجد سے نکلا اور خانوں کے ساتھ خانکی بازار میں ملا۔ فی میل ڈاکٹر کو اعظم خان صوبیدار میجر گاؤں لے گیا اور یہ خود ملا کے آستانے میں آئے۔ ملا صاحب نے ملاقات سے انکار کیا۔ صبح سویرے ملا صاحب کے مریدوں نے یہ شور برپا کیا کہ پشاوری مرید کوئی اور نہیں بلکہ کرم ایجنسی کا ڈپٹی قلی خان خٹک ہے (یعنی علی قلی خان) جو مریدی کے لباس میں مس ایلس کا پتا لگانے میں کامیاب ہوا ہے۔
ملا صاحب نے خانوں کو صاف جواب دیا کہ جب تک عجب خان آفریدی کی تمام شرائط تسلیم نہیں کی جاتیں، مَیں مس ایلس کو اُس وقت تک حوالے نہیں کروں گا۔ بقول ملا صاحب، ”اگر ایسا نہ ہوا تو میں اس کو کیا منھ دکھاؤں گا؟
چند دن تک مکمل خاموشی چھائی رہی۔ پھر اچانک نقاروں کی آوازیں ہر طرف سے بلند ہونے لگیں۔ سب لوگوں نے نقاروں کی جانب توجہ دی۔ اُدھر دور پہاڑ کی چوٹی سے عجب خان آفریدی اور اُن کے ساتھی ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انسانوں کے سمندر کو دیکھتے رہے، جو خانکی بازار میں ملا کے آستانے کی جانب بڑھتا رہا۔ خبر پھیل گئی کہ یہ قومی لشکر ہے، جو مس ایلس کی آزادی کے لیے رواں دواں ہے۔ لشکر نے اخوند زادہ گاؤں کے سامنے اپنے اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ لشکر کا ایک ہی نعرہ تھا کہ ”ہم عجب خان آفریدی کی کوئی شرط ماننے کو تیار نہیں اور مس ایلس کو بزورِ بازو حاصل کرکے دم لیں گے۔ ہم انگریز حکومت سے دشمنی مولنا نہیں چاہتے۔“ فیصلہ ہوا کہ شہزادہ اور عجب خان نہ صرف تیراہ گاؤں سے نکلیں گے، بلکہ اُن کے گاؤں کو آگ بھی لگائی جائے گی۔
اُدھر پہاڑ کی چوٹی سے عجب خان آفریدی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یہ منظر دیکھتا رہا۔ مس ایلس کو سوار کرکے لے جایا گیا۔ عجب خان اور شہزادہ کچھ دیر تک یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ اس موقع پر عجب خان آفریدی نے روہانسی آواز میں اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ سچ ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ انگریزوں کا خمیر سو شیطانوں نے بنایا ہے۔ مَیں نے ان کے ساتھ اپنی قوم اور عوام کے لیے پنجہ آزمائی کی۔ تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ پہاڑی لوگ ترنوالہ نہیں ہیں کہ اتنی آسانی سے انہیں ہضم کیا جائے، لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے ہمیں آپس میں ٹکرایا اور خان، خوانین اور مَلَکوں نے میری قوم کے گلے میں طوقِ غلامی ڈال دیا۔ بہت جلد دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ جنگل کبھی شیروں سے خالی نہیں ہوتا۔“
اس کے بعد عجب خان آفریدی نے لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”میرے ساتھیو، آپ اپنے اپنے گھر جائیں۔ میری قوم کے نوجوانوں سے ضرور کہیں کہ عجب خان تم سے ناراض ہوکر چلا گیا۔ تمہیں اپنی عزت اور غیرت کی قسم، اگر کبھی تم میں دوسرا عجب خان پیدا ہوا، تو اِس عجب خان کا بدلہ ان مَلَکوں اور انگریزوں سے ضرور لینا۔“
دوسرے ہی روز عجب خان آفریدی کے گاؤں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اُن کے گاؤں کو کھنڈر بنا دیا گیا۔ دوسری جانب مَلَکوں اور خانوں کے دولت کدوں اور حویلیوں کے سامنے اس وقت کے مطابق گاڑیاں کھڑی دیکھی گئیں۔
(افسانہ ”عجب خان آفریدی“ از مراد شنواری سے چند اقتباسات کا ترجمہ، راقم)