مشہور زمانہ وادیٔ سوات جسے اپنی خوب صورتی کی وجہ سے ایشیا کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا ہے، جغرافیائی لحاظ سے اس علاقہ کا ایک کلیدی اور اہم حصہ ہے جہاں براعظم ایشیا کے تین اہم خطے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور چین ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ تاریخی طور پر اس کی امتیازی حیثیت ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں یہ کئی خوف ناک فوجی مہمات کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ 1877ء کے بعد وادیٔ سوات میں سازشوں اور گروہی تنازعات کا ایک بازار گرم رہا۔ خان آف دیر، میاں عبدالحنان، شیر دل خان آف الہٰ ڈنڈ، عمرا خان آف جندول اپنے اپنے مفادات کے لیے باہم دست و گریباں رہے۔ 1879ء میں خان آف دیر نے دریائے سوات کے دائیں کنارے کے کچھ علاقہ پر قبضہ کر لیا اور 1881ء کے اختتام تک وہ پورا علاقہ اس کے زیرتسلط آ گیا۔ اپنا ہی بیٹا اور خان آف جندول اگر اس کے لیے مشکلات پیدا نہ کرتے تو وہ یقینا مزید علاقوں پر قابض ہونے کی یہ مہم جاری رکھتا۔ ادھر امیر افغانستان کا سوات پر حکمرانی کا اپنا دعویٰ تھا اور 1888ء میں برطانیہ بھی اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اس علاقہ پر ایک قسم کی گرفت رکھنے کی جدوجہد میں شامل ہو گیا۔ قسمت نے مختلف اوقات میں مختلف دعویداروں کا ساتھ دیا۔ انگریزوں نے 1893ء میں ڈیورنڈ لائن معاہدہ کر کے اس علاقہ میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔ 1895ء میں عمرا خان آف جندول کے زوال کے بعد انگریزوں نے شریف خان کو خان آف دیر کی حیثیت پر بحال کیا۔ دریائے سوات کے دائیں کنارے پر اس کے قبضہ کو تسلیم کیا اور بالآخر 1897ء میں اسے نواب آف دیر مان لیا۔ اس سال سیدو بابا کے چاروں پوتے بھی اقتدار کی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔ چونکہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذاتی طاقت اور حیثیت کو مستحکم کرنے کے لائحہ عمل پر عمل پیرا تھا اس لیے یہ خاندان اندرونی سازشوں کا شکار ہو گیا۔ نتیجتاً عبدالحنان کے دونوں بیٹے عبدالرزاق اور عبدالواحد اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں بالترتیب 1903ء اور 1907ء میں مار ڈالے گئے۔ عبدالودود نے ایک طرف اپنے سگے بھائی شیریں جان کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ دوسری طرف ابتدا ہی سے انگریزوں سے بھی ان کی طرح طرح کی خدمات بجا لا کر دوستانہ تعلقات قائم کر لیے۔ تاج برطانیہ کی سرپرستی میں نواب آف دیر کی حیثیت اور اقتدار اپنے علاقہ میں محفوظ تھا لیکن دریائے سوات کے دائیں کنارے کے باشندوں کے ساتھ اس کی ان بن جاری رہی۔ یہاں اس کے قبضہ کو مسلسل خطرات کا سامنا تھا مگر تنازعات اور ڈلہ (دھڑا) نظام نے، جس پر یہاں کی سماجی تنظیم کی بنیاد قائم رہی ہے، ایک قسم کی بے چینی کو جنم دیا۔ نواب دیر کی مسلسل دراندازیوں اور گروہی جھگڑوں سے تنگ آ کر سوات بالا کے باشندوں نے بھی برطانوی حکومت سے استدعا کی کہ وہ سوات زیریں کی طرح ان کے علاقہ کو بھی اپنی حفاظت میں لے لے، جسے 1895ء میں چترال مہم کے بعد یہ حیثیت دے دی گئی تھی۔ وہ مختلف افراد سے بھی یہ حکومت سنبھالنے کی ناکام درخواستیں کرتے رہے۔ دیر کے محصول حکام کی زیادتیوں اور نواب کے ظالمانہ و جابرانہ انداز نے لوگوں کو اتنا ناراض کر دیا کہ 1907ء میں انہوں نے عشر کی ادائیگی روک دی اور مزید اطاعت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کی فوری وجہ سوات میں بااثر ڈلوں (دھڑوں) کی قوت اقتدار میں تبدیلی بھی تھی۔ نواب نے یہ جاننے کے بعد کہ حکومت برطانیہ مداخلت نہیں کرے گی، 1910-11ء میں سوات بالا پر حملہ کر کے وہاں اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کر دی۔ لیکن اس حکومت کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ اس لیے 1914ء میں مقامی باشندوں نے دوبارہ اپنی الگ ریاست کے قیام کے لئے ستھانہ کے عبدالجبار شاہ کے پاس ایک جرگہ بھیج کر اسے حکمرانی کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی اور سوات کی طرف روانہ ہوا لیکن برطانوی حکام نے اسے راستہ میں روک کر سوات کی بطور ریاست قیام کی کوششیں ناکام بنا دیں۔
سوات میں قدیم سازشیں اورگروہی تنازعات
