حضرات! یہ کون سی نئی بات ہے کہ ایک عرصے سے پاکستان میں قسما قسم کے ڈاکے پڑتے رہتے ہیں…… بلکہ ہم نے تو ڈاکوں کی نئی اقسام متعارف کرائی ہیں۔ بے شک ڈاکوؤں کی نشان دہی نہ ہو، لیکن ڈاکے برابر ڈالے جاتے ہیں۔ افراد لوٹے جاتے ہیں۔ اداروں پر ڈاکے پڑتے ہیں۔ خزانوں کا بہت ٹیکنیکل انداز سے صفایا کیا جاتا ہے۔ اسلام کے نام پر، ملک کے نام پر، وطن اور قوم کے نام پر اور غریب عوام کے نام پر وہ ڈاکے ڈالے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ!
یہاں پر اس لوٹ مار اور ڈاکوں کے مختلف گروہ، افراد اور ادارے پائے جاتے ہیں۔ ایک ڈاکا وہ ہے کہ عوام کی طرف سے عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ ایک فرد، قوم پر ڈاکا ڈالتا ہے،اس طرح حکومت کی طرف سے عوام کو رگیدا جاتا ہے۔ ایک گروہ دوسرے گروہ کو لوٹتا ہے اور ایک ادارے کی طرف سے مختلف طریقوں سے عوام کو لوٹا جاتا ہے۔
اس حوالے سے طریقۂ واردات بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں لوٹنا اور ڈاکا ڈالنا تو پرانی بات ہے اور یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں۔ مزہ تو تب ہے کہ دن دھاڑے ڈاکا ڈالا جائے اور سرِ عام، عوام کو لوٹا جائے…… اور عوام بے چارے جواباً بے کسی سے ادھر اُدھر دیکھ رہے ہوں…… اور کوئی بھی مدد کرنے کو تیار نہ ہو۔
قارئین! مَیں جس ڈاکے کا ذکر کررہا ہوں، وہ ایک ادارے کی طرف سے عوام پر ڈالا گیا ہے…… اور دن دھاڑے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اب ذرا توجہ دیجیے۔
حضرات! سوات میں ایک مشہور ترین موبائل سروس کی کارکردگی صفر کے برابر ہوچکی ہے۔ پاس کے کمرے میں بندہ بیٹھا ہوگا، نمبر ملانے پر یہ آواز آئے گی: ’’اب 1 دبائیں، نمبر آن ہونے پر آپ کو اطلاع دی جائے گی، صرف 75پیسے میں!‘‘ یہ بھی ڈاکے ہی کی ایک قسم ہے۔ جب اُسی وقت کال دوبارہ ملائی جاتی ہے، تو 75 پیسے والا فوراً اُٹھا لیتا ہے۔
اس طرح اگر 25جولائی کی آدھی رات کو آپ کا ماہانہ پیکیج پورا ہو رہا ہے اور آپ 25 جولائی کی صبح دوبارہ پیکیج کریں، تو جب میسج آئے گا، تو نئے پیکیج کے پورے ہونے کی تاریخ 23 اگست ہوگی۔ حالاں کہ جولائی اور اگست دونوں مہینے 31 دن کے ہیں…… لیکن یہاں بھی ہر مہینے دو دن کا سرِ عام ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ کیا شان دار ڈاکا ہے، اسے کہتے ہیں ’’ٹیکنیکل ڈاکا‘‘…… اب کون جائے، کہاں جائے اور کس سے فریاد کرے……؟
بارش ہورہی ہوگی۔ رات کا وقت ہوگا۔ آپ ڈرائیونگ کررہے ہوں گے۔ اتنے میں موبائل کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگ جائے گی۔ آپ بہ مشکل ایک ہاتھ سے سٹیئرنگ سنبھالتے ہوئے موبائل کو جیب سے نکال کر کان سے لگائیں گے، تو آواز کچھ اس قسم کی آئے گی ’’معزز صارف فُلاں لایا ہے ایک نیا پیکیج آپ کے لیے…… صرف 20 روپے میں……!‘‘ اب آپ خود سوچ لیں کہ اُس وقت آپ کے جذبات و احساسات کیا ہوں گے؟ یہ ہے ظرف کی پہچان…… یہ ہے اخلاق کی زوال پذیری…… جس میں پوری قوم مبتلا ہوچکی ہے۔ مذکورہ سروس والوں کو یہ علم نہیں کہ صرف اس کال کی وجہ سے خواتین و حضرات کا کتنا وقت ضائع ہوا اور بچوں کے حوالے سے اس کے کتنے نقصانات ہیں؟ اس کال کی وجہ سے کتنے لوگوں کے آرام اور توجہ میں خلل پڑگئی…… کتنے مریض پریشان ہوئے…… مگر انھیں کیا پروا…… وہ تو اپنے پروپیگنڈے کے چکر میں ہیں۔ پیسا کمانے کے چکر میں ہیں۔ عوام جائیں باڑ میں!
اب ذرا ’’نئے نویلے ڈاکے‘‘ کی روئیداد سماعت فرمائیں۔ اگر کوئی دوسرے کو سنا رہا ہے، تو وہ دل تھام کر سنیے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ذرا زندگی کے شب و روز میں منظم واقع ہوئے ہیں۔ ہر کام اپنے وقت پر ایک منظم طریقے سے سرانجام دینے کے عادی ہیں۔ روز رات کو اگلے دن کی مصروفیات لکھ لیتے ہیں۔ بڑا کام پہلے پھر اُس سے چھوٹا اور اُس سے چھوٹا، علیٰ ہذاالقیاس۔ ماہانہ چند ضروری کام اپنے سرہانے ایک کاغذ پر پنسل سے لکھ کر چسپاں کرچکے ہیں۔ اُن میں ہر مہینے مذکورہ ’’سروس‘‘ کی آخری تاریخ بھی درج ہوتی ہے۔ اس غرض سے کہ اگر وقتِ مقررہ پر نیا پیکیج نہ کیا جائے، تو رات 12بجے کے بعد پرانے پیکیج میں جو چند منٹ باقی ہوتے ہیں، ضایع ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ہم پچھلے چند مہینوں سے تقریباً ’’تین ہزار منٹ‘‘ جمع کرچکے تھے۔ اب دردناک حادثہ ملاحظہ فرمائیں۔ 28 جولائی کو صبح سویرے منھ اندھیرے ہم نے سرہانے رکھے کاغذ پر 28 جولائی رات 12بجے ’’پیکیج‘‘ کے خاتمے کی آخری تاریخ دیکھی، تو ناشتے کے بعد سب سے پہلے ’’نزدیکی ترین‘‘ سنٹر سے فون پر رابطہ کیا اور پیکیج تازہ کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے تھوڑی دیر میں کام کردیا۔ جب میسج پڑھا، تو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ لکھا تھا کہ آپ کے 2100 منٹ آج رات 12 بجے ختم ہوجائیں گے…… اور آج کے 1500 منٹ 26 اگست رات 12بجے ختم ہوں گے۔
جناب! یہ ہے نیا ڈاکا…… سوال یہ ہے کہ میں تو ہر مہینے ویسے بھی اس حرص میں پیکیج تازہ کراتا ہوں کہ پرانے منٹ ضایع نہ ہوجائیں، تو پھر پرانے منٹ ختم کرانے کی کیا تُک ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تو میرا حق ہے۔ مَیں اس کی ادائی کرچکا ہوں۔ ہاں، گناہ یہ ہے کہ مَیں نے اس کو مقررہ مدت میں ختم کیوں نہ کیا…… یعنی دوسری تمام مصروفیات چھوڑ کر صرف پیکیج کو مقررہ وقت میں ختم کرنے کے لیے وقت کیوں نہیں دیا! قوم کو زبردستی ایک طرح سے ’’افیون‘‘ کے نشے میں مبتلا کیا جا رہا ہے…… اور ویسے بھی مبتلا ہوچکی ہے۔
تو جناب! یہ ہے ایک ادارے کی طرف سے بے چارے عوام کی جیب پر دن دھاڑے ایک نیا ڈاکا۔
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
نعرہ لگاوں گا تو باغی کہلاؤں گا۔ ہاتھ چلاؤں گا تو دہشت گرد کہلاؤں گا۔ بہرحال اگر چپ رہوں گا، تو ’’شریف‘‘ کہلاؤں گا…… لیکن تاریخ غلام اور بزدل کے نام سے پکارے گی، اب آپ ہی بتایئے کہ کیا کیا جائے؟
ہاں، اس ڈاکے سے ایک فایدہ یہ ہوا کہ اب دیواری کاغذ پر مذکورہ سروس کے پیکیج کی آخری تاریخ لکھنے اور نئے پیکیج ڈالنے کی فکر سے جان چھوٹ گئی۔
ایک نیا ڈاکا
